حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میںنے خزانچی سے پوچھا کہ انھوں نے کتنا مال تقسیم کیا؟ خزانچی نے کہا: چار لاکھ۔2 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: حضرت طلحہ ؓ نے اپنی ایک زمین سات لاکھ میںبیچی تو یہ رقم ایک رات ان کے پاس رہ گئی تو انھوں نے وہ ساری را ت اس مال کے ڈر سے جاگ کر گزاری۔ صبح ہوتے ہی وہ ساری رقم تقسیم کر دی۔3 حضرت طلحہ ؓ کی بیوی حضرت سعدیٰ ؓ فرماتی ہیں: ایک دن حضرت طلحہ میرے پاس آئے، وہ مجھے بڑے غمگین نظر آئے۔ میں نے کہا: کیا بات ہے؟ مجھے آپ کا چہرہ بڑا پریشان نظر آرہا ہے۔ کیا ہماری طرف سے کوئی ناگوار بات پیش آئی ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! تمہارے طرف سے کوئی ناگوار بات پیش نہیں آئی ہے، تم تو اچھی بیوی ہو۔ میں اس وجہ سے غمگین وپریشان ہوں کہ میرے پاس بہت سا مال جمع ہوگیا ہے۔ میں نے کہا: آپ آدمی بھیج کر اپنے رشتہ داروں اور اپنی قوم کو بلالیں، اور ان میں یہ مال تقسیم کر دیں۔ چناںچہ انھوں نے بلا کر ان میں سارا مال تقسیم کر دیا۔ پھر میں نے خزانچی سے پوچھا کہ انھوں نے کتنا مال تقسیم کیا ہے؟ اس نے بتایا: چار لاکھ۔ ان کی روزانہ آمدن ایک ہزار وافی تھی۔ (ایک وافی ایک درہم اور چار دانق کا ہوتا ہے اور ایک درہم میں چھ دانق ہوتے ہیں، لہٰذا ہزار وافی کے ایک ہزار چھ سو چھیاسٹھ درہم اور چار دانق ہوئے) اسی سخاوت کی وجہ سے انھیں طلحہ فیّاض کہا جاتا تھا، یعنی بہت زیادہ سخی۔1حضرت زبیر بن عوّام ؓ کا مال تقسیم کرنا حضرت سعید بن عبد العزیز ؓ کہتے ہیں: حضرت زبیر بن عوّام ؓ کے ہزار غلام تھے جو انھیں مال کما کر دیا کرتے تھے۔ وہ روزانہ شام کو ان سے مال لے کر رات ہی کو سارا تقسیم کردیتے، اور جب گھر واپس جاتے تو اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا نہ ہوتا۔2 حضرت مُغِیث بن سُمیٰ ؓ کہتے ہیں: حضرت زبیر ؓ کے ایک ہزار غلام تھے جو انھیں مال کما کر دیا کرتے تھے۔ وہ ان غلاموں کی آمدن میں سے ایک درہم بھی گھر نہیں لے جاتے تھے (بلکہ ساری آمدن دوسروں میں تقسیم کر دیتے تھے)۔ 3 حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں: جنگِ جمل کے دن (میرے والد) حضرت زبیر ؓ کھڑے ہوئے تومجھے بلایا۔ میں ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا تو انھوںنے کہا: اے میرے بیٹے! آج جو بھی قتل ہوگا اسے فریقِ مخالف ظالم سمجھے گا اور وہ خود اپنے آپ کو مظلوم سمجھے گا۔ اور مجھے ایسا نظر آرہا ہے کہ میں بھی آج ظلماً قتل ہوجاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضے کی ہے۔ تمہارا کیا خیا ل ہے قرضہ ادا کرنے کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا؟ اے میرے بیٹے! ہمارا مال بیچ کر قرضہ ادا کر دینا۔ پھر حضرت زبیر نے یہ وصیت فرمائی کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد جو مال بچے اس کا ایک تہائی (ورثا کے علاوہ) دوسروں کو دے دیا جائے۔ اور اس ایک تہائی کا ایک تہائی (یعنی بچے ہوئے مال کا نواں حصہ) حضرت عبد اللہ بن