حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرات خُلَفَائے کرام کا دیگر خُلَفَاواُمرا کو وصیّت کرنا حضرت ابو بکر ؓ کا حضرت عمر ؓ کو وصیت کرنا حضرت اَغَرّ(اَغَرّ بنی مالک) ؓ کہتے ہیں: جب حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عمر ؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انھوں نے آدمی بھیج کر حضرت عمر کو بلایا۔ جب وہ آگئے تو ان سے فرمایا: میں تمہیں ایک ایسے کام کی طرف بلانے لگا ہوں کہ جو بھی اس کی ذمہ داری اٹھائے گا یہ کام اسے تھکا دے گا۔ لہٰذا اے عمر! اللہ کی اطاعت کے ذریعہ تم اس سے ڈرو اور اس سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کرو، کیوںکہ اللہ سے ڈرنے والا ہی (ہر خوف سے) اَمن میں ہوتا ہے اور (ہر شر اور مصیبت سے) محفوظ ہوتا ہے۔ پھر اس امرِ خلافت کا حساب اللہ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اور اس کام کا مستحق صرف وہی ہے جو اس کا حق ادا کرسکے۔ اور جو دوسروں کو حق کا حکم دے اور خود باطل پر عمل کرے، اور نیکی کا حکم کرے اور خود برائی پر عمل کرے اس کی کوئی اُمید پوری نہ ہوسکے گی اور اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے (وہ اعمال آخرت میں اس کے کام نہ آئیں گے)۔ لہٰذا اگر تم پر مسلمانوں کی خلافت کی ذمّہ داری ڈال دی جائے تو پھر تم اپنے ہاتھوں کو ان کے خون سے دور رکھ سکو، اور اپنے پیٹ کو ان کے مال سے خالی رکھ سکو، اور ان کی آبروریزی سے اپنی زبان کو بچا سکو تو ضرور ایسے کرنا۔ اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی سے ملتی ہے۔1 حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: جب حضرت ابو بکر ؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انھوںنے یہ وصیت نامہ لکھوایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ابوبکر صدیق کی طرف سے وصیت ہے۔ (اور وہ یہ وصیّت نامہ اس وقت کر رہے ہیں) جب کہ ان کا اس دنیا میں آخری وقت آگیا ہے اور وہ اس دنیا سے جا رہے ہیں اور ان کی آخرت شرو ع ہو رہی ہے جس میں وہ داخل ہو رہے ہیں۔ اور یہ موت کا وقت ایسا ہے کہ جس وقت کافر بھی غیب پر ایمان لے آتا ہے اور فاسق وفاجر بھی متقی بن جاتا ہے اور جھوٹا آدمی بھی سچ بولنے لگ جاتا ہے۔ میں نے اپنے بعد عمر بن خَطّاب کو خلیفہ بنا دیا ہے۔اگر وہ عدل وانصاف سے کام لیں تو ان کے بارے میں میرا گمان یہی ہے ، اور اگر وہ ظلم کریں اور بدل جائیں تو