حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے جس پر اس نے کہا کہ اب وہ راضی ہوگیا ہے۔ کیوںاے دیہاتی! بات ایسے ہی ہے نا؟ اس دیہاتی نے کہا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ آپ کو میرے گھر والوں اور میرے خاندان کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: میری اور اس دیہاتی کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کی ایک اونٹنی تھی جو بدک گئی۔ لوگ اس کے پیچھے لگ گئے اس سے وہ اور زیادہ بھاگنے لگی۔ اونٹنی والے نے لوگوں سے کہا: تم لوگ اس کا پیچھا چھوڑ دو میں اسے خود پکڑ لوں گا، میں اس کے مزاج وعادت کو خوب جانتا ہوں، میں نرمی کر کے اسے پکڑ لوں گا۔ چناںچہ وہ اونٹنی کی طرف چل پڑا اور زمین پر پڑا ہوا کھجور کا بے کار خوشہ لے کر اسے بلاتا رہا یہاں تک کہ وہ آگئی اور مان گئی۔ آخر اس نے اس پر کجاوہ کسا اور اس پر بیٹھ گیا۔ اس نے پہلے جو بات کہی تھی اس پر اگر میں تمہاری بات مان کر اسے سزا دے دیتا تو یہ دوزخ میں داخل ہو جاتا۔1نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کی شفقت حضرت اَصمعی ؓکہتے ہیں: لوگوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے کہا کہ آپ حضرت عمربن خطّاب ؓ سے بات کریں کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار کریں۔ اس وقت تو ان کے رعب کا یہ حال ہے کہ کنواری لڑکیاں بھی اپنے پردے میں ان سے ڈرتی ہیں۔ حضرت عبد الرحمن نے جا کر حضرت عمرسے یہ بات کی تو حضرت عمر نے فرمایا: میں تو ان کے ساتھ ایسے ہی پیش آؤں گا، کیوںکہ اگر ان کو پتا چل جائے کہ میرے دل میں ان لوگوں کے لیے کتنی مہربانی، شفقت اور نرمی ہے تو یہ میرے کندھے سے کپڑے اُتار لیں۔1 …٭ ٭ ٭…شرم وحیا نبی کریم ﷺ کی حیا حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں: کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیا والی ہوتی ہے حضور ﷺ اس سے زیادہ حیا والے تھے۔ اور جب حضورﷺ کو کوئی بات ناگوار ہوتی تھی تو آپ کے چہرے سے اس ناگواری کا صاف پتا چل جاتا تھا۔1