حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیٹھے ہوئے تھے اور فلاں فلاں عورتیں ان کی بیویاں تھیں جو بڑے حسب ونسب اور جمال والی تھیں، اور ان کی ان دونوں سے بڑی خوب صورت اولاد تھی کہ اتنے میں ان کے سر کے اوپر ایک چڑیا بولنے لگی اور اس نے ان کے سر پر بِیٹ کر دی۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے بِیٹ پھینک دی اور فرمایا: عبداللہ کے سارے بچے مرجائیں اور ان کے بعد میں بھی مر جاؤں، یہ مجھے اس چڑیا کے مرنے سے زیادہ پسند ہے۔2 (صحابۂ کرام ؓ کے دلوں میںخلقِ خدا پر اتنی شفقت تھی کہ انھیں جانور بھی اپنے بچوں سے زیادہ پیارے لگتے تھے) حضراتِ اہل الرائے سے مشورہ کے عنوان کے ذیل میں حضرت عمر ؓ کا یہ فرمان گزرچکا ہے کہ اللہ کی قسم! (بدر کے قیدیوں کے بارے میں) جو حضرت ابو بکر ؓ کی رائے ہے وہ میری نہیں ہے۔ بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ فلاں آدمی جو میرا قریبی رشتہ دار ہے وہ میرے حوالہ کر دیں میں اس کی گردن اُڑا دوں، اور عقیل کو حضرت علی ؓ کے حوالہ کر دیں وہ عقیل کی گردن اُڑا دیں، اور فلاں آدمی جو حضرت حمزہ ؓ کے بھائی ہیں یعنی حضرت عباسؓ وہ حضرت حمزہ کے حوالہ کر دیں حضرت حمزہ ان کی گردن اُڑا دیں تاکہ اللہ تعالیٰ کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے بارے میں کسی قسم کی نرمی نہیں ہے۔ حضراتِ انصار کے ایسے ہی قصے ( جلدِ اوّل میں) انصار کے (اسلام کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے) جاہلیت کے تعلقات کو قربان کرنے کے باب میں گزر چکے ہیں۔حضراتِ صحابۂ کرام ؓ کے دلوں میں حضور ﷺ کی محبت حضرت عبد اللہ بن ابی بکر ؓ فرماتے ہیں: حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا: یا نبی اللہ! کیا ہم آپ کے لیے ایک چھپّر نہ بنا دیں جس میں آپ رہیں، اور آپ کی سواریاں تیار کر کے آپ کے پاس کھڑی کر دیں، پھر ہم دشمن سے لڑنے چلے جائیں؟ اگر اللہ نے ہمیں عزت دی اور ہمیں دشمن پر غالب کر دیا تو پھر تو یہ وہ بات ہوگی جو ہمیں پسند ہے، اور اگر خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئی (یعنی ہم ہار جائیں) تو آپ سواریوں پربیٹھ کر ہماری قوم کے ان لوگوں کے پاس چلے جائیں جو مدینہ منوّرہ پیچھے رہ گئے ہیں، کیوںکہ مدینہ منوّرہ میں ایسے بہت سے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہمیں ان سے زیادہ آپ سے محبت نہیں ہے (بلکہ ہمارے برابر ہی ہے)۔ اگر انھیں ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ آپ کو لڑائی لڑنی پڑے گی تو وہ ہرگز مدینہ میں پیچھے نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ آپ کی حفاظت فرمائیں گے، وہ آپ کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں گے اور آپ کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے حضرت سعد ؓ کی بڑی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ اور پھر حضور ﷺ کے لیے ایک چھپّر بنایا گیا جس میں آپ رہے۔1 حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ایک آدمی نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے