حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں آ کر عرض کیا کہ بحرین کا خراج (محصو ل) ہمارے لیے مقرر فرما دیں، ہم آپ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہماری قوم کا کوئی آدمی(دینِ اسلام سے) نہیں پھرے گا۔ چناںچہ حضرت ابو بکر ؓ ایسا کرنے پر تیار ہو گئے اور ان کے لیے ایک تحریر لکھی اور یہ معاملہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ کی وساطت سے طے ہوا۔ ان حضرات نے چند گواہ بھی مقرر کیے جن میں حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ جب یہ تحریر حضرت عمرکے پاس آئی اور انھوں نے اسے دیکھا تو انھوں نے اس پر گواہ بننے سے انکار کر دیا اور فرمایا: نہیں، اب کسی کے اِکرام اور تالیفِ قلب کی ضرورت نہیں ہے۔ پھراس تحریر کے لکھے ہوئے کو مٹا کر اسے پھاڑ دیا۔ اس پر حضرت طلحہ کو بہت غصہ آیا اور انھوں نے حضرت ابو بکر کے پاس آکر کہا: آپ امیر ہیں یا عمر؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا: امیر تو حضرت عمر ہیں، لیکن بات میری ماننی ضروری ہے۔ (حضرت طلحہ نے سوال تو ایسا ہی کیا تھا جس سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ میں توڑ پیداہوجائے، لیکن حضرت ابو بکر نے جواب جوڑ والا دیا۔ اس وجہ سے) یہ سن کر حضرت طلحہ خاموش ہو گئے۔1 حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓکو یہ لکھا کہ حضور ﷺ جنگی اُمور کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے، لہٰذا تم بھی مشورہ کرنے کو اپنے لیے لازمی سمجھو۔2 اس سے پہلے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت میں یہ بات گزر چکی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے غزوۂ روم کے بارے میں حضراتِ اہلِ رائے سے مشورہ کیا۔حضرت عمر بن الخطّاب ؓ کا حضراتِ اہلِ رائے سے مشورہ کرنا حضرت ابو جعفر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو ان کی صاحب زادی حضرت اُمّ کلثوم ؓ سے نکاح کا پیغام دیا تو حضرت علی نے کہا: میں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اپنی بیٹیوں کی شادی صرف جعفر کے بیٹوں سے ہی کروں گا۔ حضرت عمر نے فرمایا: اے علی! تم اس سے میری شادی کردو، کیوںکہ روئے زمین پر کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو آپ کی اس بیٹی کے ساتھ اچھی زندگی گزار کر وہ اعلیٰ فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہو جو میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ (اور اس فضیلت کو حضرت عمر ؓ نے ا ٓگے جا کر بیان فرمایا ہے) اس پر حضرت علی ؓ نے فرمایا: اچھا! میں نے ( اس بیٹی کا آپ سے نکاح) کردیا۔ مہاجرین میں سے حضرت علی، حضرت زُبیر، حضرت طلحہ اورحضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ (حضرت عمر کے مشورے والے حضرات تھے اور یہ حضرات ہر وقت مسجدِ نبوی میں) قبرِ نبوی اور منبر شریف کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ جب اَطرافِ عالم سے کوئی بات حضرت عمر کے پاس آیا کرتی تو وہ آکر ان کو بتایا کرتے اور اس کے بارے میں ان سے مشورہ