حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کرلیتا، اور ظالم تمنا کرے گا کہ اسے (ایک دفعہ پھر دنیا میں) واپس بھیج د یا جائے (تاکہ وہ نیک عمل کرکے آئے اور یہ جگہ میدانِ حشر ہے)۔ 1 قبیلہ ثَقِیف کے ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے مجھے عُکبرا شہر کا گورنر بنایا۔ اور وہاں کے مقامی لوگ جو کہ ذمی تھے، وہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو حضرت علی نے مجھ سے فرمایا: عراق کے دیہاتی لوگ دھوکہ باز ہوتے ہیں، خیال رکھنا کہیں تمہیں دھوکہ نہ دے دیں۔ لہٰذا ان کے ذمہ جو حق ہے وہ ان سے پورا وصول کرنا۔ پھر مجھ سے فرمایا: شام کو میرے پاس آنا۔ چناںچہ جب میں شام کو خدمت میں حاضر ہوا تو مجھ سے فرمایا: میں نے صبح تم کو جو کہا تھا وہ ان لوگوں کو سنانے کے لیے کہاتھا۔ رقم کی وصولی کے لیے ان میں سے کسی کو کوڑا نہ مارنا اور نہ (دھوپ میں) کھڑا کرنا اور ان سے (شرعی حق کے بغیر اپنے لیے) بکری اور گائے نہ لینا۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے عفو لیں۔ اور جانتے ہو کہ عفو کسے کہتے ہیں؟ جسے وہ آسانی سے دے سکے (اور وہ اس کی ضرورت سے زائد ہو)۔ 2 اور ’’بیہقی‘‘کی روایت میں یہ مضمون بھی ہے کہ ان کا غلّہ اور گرمی سردی کے کپڑے اور ان کے کھیتی اور باربرداری کے کام آنے والے جانور نہ بیچنا، اور پیسوں کی وصولی کے لیے کسی کو (دھوپ میں) کھڑا نہ کرنا۔ اس امیر نے کہا: پھر تو میں جیسا آپ کے پاس سے جا رہا ہوں ایسا ہی خالی ہاتھ واپس آجاؤں گا۔ حضرت علی نے فرمایا: (کوئی بات نہیں) چاہے تم جیسے جارہے ہو ویسے ہی واپس آجاؤ۔ تیرا ناس ہو! ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان سے ضرورت سے زائد مال ہی لیں۔3رعایا کا اپنے امام کو نصیحت کرنا حضرت مکحول ؓ کہتے ہیں: حضرت سعید بن عامربن حِذْیم جمحیؓ جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں۔ انھوں نے حضرت عمر بن خطّاب ؓ سے کہا: اے عمر! میں آپ کو کچھ وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: ہاں ضرور وصیّت کرو۔ (امیر کو غلطی پر متنبہ نہ کرنا خیانت ہے اور بھرے مجمع میں متنبہ کرنا گستاخی ہے اور تنہائی میںمتوجہ کرنا نصیحت ہے) میں آپ کو یہ وصیت کرتا ہوںکہ آپ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈریں اور اللہ کے بارے میں لوگوں سے نہ ڈریں۔ اور آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ بہترین قول وہ ہے جس کی تصدیق عمل کرے۔ ایک ہی معاملہ میں دو متضاد فیصلے نہ کرنا ورنہ آپ کے کام میں اختلاف پیدا ہوجائے گا اور آپ کو حق سے ہٹنا پڑے گا۔ دلیل والے پہلو کو اختیار کریں اس طرح آپ کو کامیابی حاصل ہوگی اور اللہ آپ کی مدد کرے گا اور آپ کے ہاتھوں آپ کی رعایا کی اصلاح کرے گا۔ اور دور و نزدیک کے جن مسلمانوں کا اللہ نے آپ کو ذمہ دار بنایا ہے ان کی طرف اپنی توجہ پوری رکھیں