حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(تو اسلام لانے کی وجہ سے) ان کی جان اور مال سب محفوظ ہو جاتا ہے اس لیے تم مغیرہ کو ان کی پھوپھی دے دو۔ انھوں نے حضرت مغیرہ کو ان کی پھوپھی دے دی۔ اور حضرت صخر نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ قبیلہ بنو سُلَیم ایک پانی یعنی چشمہ پر رہا کرتے تھے، وہ اسلام نہیں لائے اور وہ پانی چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ یا رسول اﷲ! وہ پانی مجھے اور میری قوم کو دے دیں، ہم لوگ وہاں رہا کریں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ اور وہ پانی حضورﷺ نے انھیں دے دیا۔ پھر قبیلۂ بنو سُلَیم مسلمان ہوگیا، انھوں نے آکر حضرت صخر سے اپنے پانی کا مطالبہ کیا۔ حضرت صخر نے انھیں پانی دینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم مسلمان ہوگئے تھے، پھر ہم حضرت صخر کے پاس گئے تھے تاکہ وہ ہمیں ہمارا پانی دے دیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے صخر! جب کوئی قوم مسلمان ہو جاتی ہے تو ان کا مال اور جان سب کچھ محفوظ ہو جاتا ہے، لہٰذا ان کا پانی انھیں واپس کر دو۔ حضرت صخر نے کہا: بہت اچھا اے اﷲ کے نبی! حضرت صخر فرماتے ہیں: پہلے حضورﷺ نے مجھ سے حضرت مغیرہ کو ان کی پھوپھی واپس دلوائی اور اب بنو سُلَیم کو ان کا پانی واپس دلوا رہے تھے، تو اس وجہ سے حضورﷺ کو بہت شرم آرہی تھی تو میںنے دیکھا کہ شرم کی وجہ سے حضورﷺ کا چہرہ سرخی میں بدل رہا تھا۔1مسلمان کو قتل کرنے سے بچنا اور ملک کی وجہ سے لڑنے کا ناپسندیدہ ہونا حضرت اَوس بن اَوس ثقفی ؓ فرماتے ہیں: ہم لوگ مدینہ منوّرہ میں مسجدِ نبوی کے اندر ایک خیمہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ اتنے میں ایک آدمی آکر حضورﷺ سے چپکے چپکے بات کرنے لگ گیا۔ ہمیں پتا نہ چلا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ وہ اسے قتل کر دیں۔ پھر حضورﷺ نے اسے بلا کر فرمایا: شاید وہ کلمۂ شہادت أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتا ہے؟ اس آدمی نے کہا:جی ہاں! (وہ پڑھتا ہے)۔ حضورﷺ نے فرمایا: جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ اسے چھوڑ دیں، کیوںکہ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اﷲ کا رسول ہوں۔ جب وہ یہ کلمۂ شہادت پڑھ لیں تو پھر ان کا خون اور مال لینا میرے لیے حرام ہو جاتا ہے۔ ہاں! ان میں کوئی شرعی حق بنتا ہے تو اس کا لینا جائز ہے اور ان کا حساب اﷲخود لیں گے۔1 حضرت عبد اﷲ بن عدی انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک آدمی ایک منافق کو قتل کرنے کے بارے میں چپکے سے بات کرنے کی حضورﷺ سے اجازت مانگنے لگا۔