حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اعلان کیا کہ جس کا بھی اللہ کے رسول ﷺ کے ذمّہ قرضہ ہے وہ آجائے۔ چناںچہ وہ کپڑے اورغلہ خریدا روں کے سامنے پیش کرتا اور اسے بیچ کر قرضہ ادا کرتا رہا، یہاں تک کہ حضور ﷺ پر رُوئے زمین میں کچھ بھی قرضہ باقی نہ رہا، بلکہ دو یا ڈیڑھ اُوقیہ چاندی بچ گئی یعنی اَسّی یا ساٹھ درہم۔ اسی میں دن کا اکثر حصہ گزر چکا تھا۔ پھر میں مسجد گیا توآپ وہاںاکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: جو کام تمہارے ذمہ تھا اس کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ذمہ جتنا قرض تھاوہ سب اللہ نے اتروادیا، اب کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ نے فرمایا: اس میں سے کچھ بچا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! دو دینا ر بچے ہیں۔ (قرض ادا کر نے کے بعد دو یا ڈیڑھ اُوقیہ چاندی بچی تھی، لیکن وہا ں سے مسجد تک آتے آتے حضرت بلال لوگوں کو دیتے چلے آئے ہوں گے اس لیے جب مسجد میں پہنچے تو صرف دو دینا ر باقی رہ گئے) آپ نے فرمایا: انھیں بھی تقسیم کردو تاکہ مجھے راحت حاصل ہو۔ جب تک تم انھیں خرچ کرکے مجھے راحت نہیں پہنچا دیتے میں اس وقت تک اپنے کسی گھر میں نہیں جا ؤں گا۔ چناںچہ اس دن ہمارے پاس کوئی نہیں آیا (اور وہ خرچ نہ ہو سکے) تو حضور ﷺ نے وہ رات مسجد میں گزاری اور اگلا دن بھی سارا مسجد میں ہی گزارا۔ شام کو دو سوار آئے۔ میںان دونوں کو لے گیا اور ان دونوں کو کپڑے پہنائے اور غلہ بھی دیا۔ جب آپ عشاء سے فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا: جو تمہارے پاس بچا تھا اس کا کیا بنا؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اس کے خرچ کرنے کی صورت بنا کر آپ کی راحت کی صورت پیدا کردی ہے۔ آپ نے خوش ہوکر فرمایا: اَللّٰہُ أَکْبَرُ۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ آپ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کوموت آجائے اور یہ بچا ہوا سامان آپ کے پاس ہی ہو۔ پھر وہاں سے آپ چلے اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا ۔آپ اپنی ازواجِ مطہّرات میں سے ایک ایک اہلیہ محترمہ کے پاس گئے اور ہر ایک کو الگ الگ سلام کیا، اور پھر جس گھر میں رات گزارنی تھی وہا ں تشریف لے گئے۔ یہ تھی حضور ﷺ کے خرچ اَخراجات کی صورت جس کے بارے میں تم نے پوچھاتھا۔1نبی کریم ﷺ کے خود مال تقسیم کرنے کا اور تقسیم کرنے کی صورت کا بیا ن حضرت اُمّ سلمہ ؓ فر ما تی ہیں: میں خو ب جا نتی ہوں کہ حضور ﷺ کے وصال تک کی مبارک زندگی میں (آپ کے گھر میں) سب سے زیا دہ مال کب آیا؟ ایک مر تبہ رات کے پہلے حصہ میں آپ کے پاس ایک تھیلی آئی جس میں آٹھ سو درہم اور ایک پرچہ تھا۔ وہ تھیلی آپ نے میرے پاس بھیج دی۔ اس رات میری باری تھی۔ آپ عشاء کے بعد گھر واپس تشریف لائے اور حجرہ شریف میں اپنی نماز کی جگہ میں نماز شروع کر دی۔ میں نے آپ کے لیے اور اپنے لیے بستر بچھا یا ہواتھا۔ میں