حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خدمت میں عرض کیا) حضورﷺ نے فرمایا: وہ دونوں تو سالن سے روٹی کھا چکے ہیں۔ (اس نے جا کر ان دونوں حضرات کو حضورﷺ کا جواب بتایا، اس پر) ان دونوں حضرات نے آ کر عرض کیا: یارسول اللہ! ہم نے کون سے سالن سے روٹی کھائی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے گوشت سے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں اس کا گوشت تم دونوں کے سامنے والے دانتوں میں دیکھ رہا ہوں۔ ان دونوں حضرات نے عر ض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے استغفار فرما دیجیے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اس سے کہو وہ تم دونوں کے لیے استغفار کرے۔2مسلمانوں کی پوشیدہ باتوں کو تلاش کرنا حضرت مِسْوَر بن مخرمہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے ایک رات حضرت عمر بن خطّاب ؓ کے ساتھ مدینہ منوّر ہ کا پہرہ دیا۔ یہ حضرات چلے جا رہے تھے کہ انھیں ایک گھر میں چراغ کی روشنی نظر آئی، یہ حضرات اس گھر کی طرف چل پڑے۔ جب اس گھر کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ بِھڑا ہوا ہے اور اندر کچھ لوگ زور زور سے بول رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں۔ حضرت عمر نے حضرت عبد الرحمن کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا: کیا تم جانتے ہو یہ کس کا گھر ہے؟ حضرت عبد الرحمن نے کہا: نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: یہ حضرت ربیعہ بن اُمیہ بن خلف ؓ کا گھر ہے اور یہ سب لوگ اس وقت شراب پیے ہوئے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے (ہمیںکیا کرنا چاہیے؟) حضرت عبد الرحمن نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ ہم تو وہ کام کر بیٹھے جس سے اللہ نے ہمیں روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: {وَلَا تَـجَسَّسُوْا}1 اور سراغ مت لگا ؤ۔ اور ہم اس گھر والوں کے سراغ لگانے میں لگ گئے ہیں۔ حضرت عمر انھیں اسی حال میں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔2 حضرت شعبی ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے اپنے ایک ساتھی کو کئی دن تک نہ دیکھا تو حضرت ابنِ عوف ؓ سے کہا: آؤ فلاں کے گھر جا کر دیکھتے ہیں (کہ وہ کس کام میں لگا ہوا ہے)۔ چناںچہ یہ حضرات اس کے گھر گئے تو دیکھاکہ اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور وہ بیٹھا ہوا ہے اور اس کی بیوی برتن میں ڈال ڈال کر اسے دے رہی ہے۔ حضرت عمر نے حضرت عبد الرحمن سے کہا: اس کام میں لگ کر اس نے ہمارے پاس آنا چھوڑا ہوا ہے۔ حضرت ابنِ عوف نے حضرت عمر سے کہا: آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس برتن میں کیا ہے؟ حضرت عمر نے کہا: کیا آ پ کو یہ خطرہ ہے کہ ہم تجسس کر رہے ہیں (جس سے اللہ نے روکا ہے؟) حضرت عبد الرحمن نے کہا: بالکل، یہ یقینا تجسس ہے۔ حضرت عمر نے کہا: اب اس گنا ہ سے توبہ کا کیا طریقہ ہے؟حضرت عبدالرحمن نے کہا: آپ کو اس کی جو با ت معلوم ہوئی ہے وہ اسے نہ بتائیں اور آپ اسے اپنے دل میں اچھا ہی سمجھیں۔ پھروہ دونوں حضرات واپس چلے گئے۔3