حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا۔ اور یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں (اس سے کچھ لینے کے لیے اس کی تعریفیں کرتا ہے لیکن وہ اسے کچھ نہیں دیتا) اور وہ اس حال میں واپس آتا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت بھی پوری نہیں ہوئی ہوتی اور وہ (غلط تعریف کر کے) اللہ کو اپنے پر ناراض بھی کر چکا ہوتا ہے۔3صلہ رحمی اور قطع رحمی حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ (نبوّت سے پہلے) قریش شدید قحط میں مبتلا ہوئے حتیٰ کہ انھیں پرانی ہڈیاں تک کھانی پڑیں، اور اس وقت حضورﷺ اور حضرت عباس بن عبد المطّلبؓ سے زیادہ خوش حال قریش میں کوئی نہیں تھا۔ حضورﷺ نے حضرت عباس سے فرمایا: اے چچا جان! آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کے بھائی ابو طالب کے بچے بہت زیادہ ہیں اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ قریش پر سخت قحط آیا ہوا ہے۔ آئیے! ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کے کچھ بچے ہم سنبھال لیتے ہیں۔ چناںچہ ان دونوں حضرات نے جاکر ابو طالب سے کہا: اے ابو طالب! آپ اپنی قوم کا (برا) حال دیکھ ہی رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ آپ بھی قریش کے ایک فرد ہیں (قحط سے آپ کا حال بھی برا ہو رہا ہے)، ہم آپ کے پاس اس لیے آئیں ہیں تاکہ آپ کے کچھ بچے ہم سنبھال لیں۔ ابو طالب نے کہا: (میرے بڑے بیٹے) عقیل کو میرے لیے رہنے دو اور باقی بچوں کے ساتھ تم جو چاہو کرو۔ چناںچہ حضورﷺ نے حضرت علیؓکو اور حضرت عباس نے حضرت جعفرؓکو لے لیا۔ یہ دونوں ان حضرات کے پاس اس وقت تک رہے جب تک یہ مال دار ہو کر خود کفیل نہ ہوگئے۔ حضرت سلیمان بن داؤد راوی کہتے ہیں کہ حضرت جعفرؓ حضرت عباسؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ وہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔1 حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جویریہؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا: میں یہ غلام آزاد کرنا چاہتی ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم یہ غلام اپنے اس ماموں کو دے دو جو دیہات میں رہتے ہیں، یہ ان کے جانور چرایا کرے گا اس میں تمھیں ثواب زیادہ ملے گا۔2 حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: {واٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ}3 اور قرابت دار کو اس کا حق (مالی اور غیر مالی) دیتے رہنا۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! فدک بستی (کی آمدنی) تمہاری ہے۔ (فدک بستی حجاز میں مدینہ سے دو تین دن کے فا صلہ پرتھی جو حضورﷺ کو مالِ غنیمت میں ملی تھی)4 حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے ساتھ میں صلہ رحمی کر