حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تُونے دیا ہے اس میں سے جتنا جی چاہے لے لے۔1 حضرت ابراہیم تیمی ؓ کے والد محترم کہتے ہیں: حضرت ابو ذر ؓ سے کسی نے کہا: جیسے فلاں فلاں آدمیوں نے جائیداد بنائی ہے آپ بھی اس طرح جائیداد کیوں نہیں بنا لیتے؟ فرمایا: میں امیر بن کر کیا کروں گا؟ مجھے تو روزانہ پانی یا دودھ کا ایک گھونٹ اور ہر ہفتہ گندم ایک قفیز (ایک پیمانہ کا نام ہے جس کی مقدار ہر علاقہ میں مختلف ہوتی ہے۔ مصر میں قفیز سولہ کلو گرام کا ہوتا ہے) کافی ہے۔ ابو نعیم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ذر ؓ نے فرمایا: میری روزی حضور ﷺ کے زمانے میں ایک صاع تھی، میں مرتے دم تک اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔2حضرت ابو الدّرداء ؓ کا زہد حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں: میں حضورﷺ کی بعثت سے پہلے تاجر تھا۔ جب حضورﷺ مبعوث ہوئے تو میں نے تجارت اور عبادت کو جمع کرنا چاہا، لیکن ایسا ٹھیک طور سے ہو نہ سکا، اس لیے میں نے تجارت چھوڑ دی اور عبادت کی طر ف متوجہ ہوگیا۔3 حضرت ابو الدرداء ؓ سے پچھلی حدیث جیسی حدیث مروی ہے اور اس میں مزید یہ بھی ہے کہ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! آج مجھے یہ بات بھی پسند نہیں ہے کہ مسجد کے دروازے پر میری ایک دکان ہو اور مسجد کی نماز باجماعت مجھ سے ایک بھی فوت نہ ہو اور مجھے اس دکان سے روزانہ چالیس دینار نفع ہو جو میں سب اللہ کے راستے میں صدقہ کر دوں۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آ پ کو یہ کیوں ناپسند ہے؟ فرمایا: حساب کی سختی کی وجہ سے۔4 حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں: مجھے اس بات سے خوشی نہیںہو سکتی کہ میں مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر خرید وفروخت کروں اور روزانہ مجھے تین سو درہم اس سے نفع ہو اور میں تمام نمازیں مسجد میں جماعت سے ادا کروں۔ میں یہ نہیںکہتا کہ اللہ تعالیٰ نے بیچنے کو حلال نہیں کیا اور سود کو حرام کیا، بلکہ میںچاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں جنھیں تجارت اور بیچنا اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتا۔1 حضرت خالد بن حُدَیر اسلمی ؓکہتے ہیں: میں حضرت ابو الدرداء ؓ کی خدمت میں گیا۔ ان کے نیچے کھال یا اُون کا بستر تھا، اور ان کے اوپر اُونی چادر تھی اور کھال کے جوتے تھے اور وہ بیمار تھے اور انھیں خوب پسینہ آیا ہو ا تھا۔ میں نے ان سے کہا: اگر آپ چاہتے تو اپنے بستر پر چاندی والا غلاف چڑھا لیتے اور زعفرانی چادر اوڑھتے جو کہ امیر المؤمنین آپ کے پاس بھیجا