حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ کو بلاکر ان سے یہ فرمایا: اے عمر! اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ) دن میں کچھ ایسے عمل ہیں جن کو وہ رات کو قبول نہیں کرتے ہیں، اور ایسے ہی اللہ کی طرف سے (انسانوں کے ذمّہ) رات میں کچھ عمل ایسے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے۔ اور جب تک فرض ادا نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے۔ دنیا میں حق کا اتباع کرنے اور حق کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن اَعمال کا ترازو بھاری ہوگا۔ کل جس ترازو میں حق رکھا جائے اسے بھاری ہونا ہی چاہیے۔ اور دنیا میں باطل کا اتباع کرنے اور باطل کومعمولی سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن ترازو ہلکا ہوگا۔ اور کل جس ترازو میں باطل رکھا جائے اسے ہلکا ہونا ہی چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جہاں جنت والوں کا ذکر کیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے سب سے اچھے اعمال کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کے برے اعمال سے درگزر فرمایا ہے۔ میں جب بھی جنت والوں کا ذکر کرتا ہوںتوکہتا ہوںمجھے یہ ڈر ہے کہ شاید میں ان میں شامل نہ ہوسکوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جہاں دوزخ والوں کو ذکر کیا ہے وہاں ان کو سب سے برے اعمال کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور ان کے اچھے اعمال کو ان پر رد کر دیا ہے یعنی ان کو قبول نہیں فرمایا۔ میں جب بھی دوزخ والوں کو ذکر کرتا ہوں توکہتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ شاید میں ان ہی کے ساتھ ہوں گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کی آیت بھی ذکر فرمائی ہے اور عذاب کی آیت بھی۔ لہٰذا بندے کو رحمت کا شوق اور عذاب کا ڈر ہونا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ سے غلط امیدیں نہ باندھے (کہ عمل تو اچھے نہ کرے اور اُمید جنت کی رکھے) اور اس کی رحمت سے نااُمید بھی نہ ہو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔ اگر تم نے میری یہ وصیت یاد رکھی (اور اس پر اچھی طرح عمل کیا) تو کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ محبوب نہ ہوگی اور تمہیں موت آکر رہے گی۔ اور اگر تم نے میری وصیت ضائع کردی (اور اس پر عمل نہ کیا) تو کوئی غائب چیز تمہیں موت سے زیادہ بری نہیں لگے گی اور وہ موت تمہیں پکڑ کر رہے گی تم اس سے بچ نہیں سکتے۔1حضرت ابو بکر ؓ کا حضرت عمرو بن عاص ؓ اور دیگر صحابۂ کرام ؓ کو وصیت کرنا حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو بکر ؓ نے شام بھیجنے کے لیے لشکروں کو جمع کرنے کا ارادہ فرمایا (چناںچہ لشکر جمع ہوگئے۔ اور) ان کے مقرر کردہ امیروں میں سے سب سے پہلے حضرت عمرو بن عاص ؓ روانہ ہوئے۔ حضرت ابو بکر نے ان کو حکم دیا کہ فلسطین جانے کے ارادے سے وہ اَیلہ شہر سے گزریں۔ اور حضرت عمرو کا لشکر جو مدینہ سے چلا تھا اس کی تعداد تین ہزار تھی، اس میں حضراتِ مہاجرین اور اَنصار کی بڑی تعداد تھی۔ (جب یہ لشکر روانہ