حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جھاڑتے۔ چناںچہ ایک دن وہ خلوق خوش بو لگائے ہوئے آئے۔ حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپ نے وہ چھڑی ہلکی سی ماری جس سے کچھ زخم ہوگیا۔ تو انھوں نے حضورﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! بدلہ دینا ہوگا۔ حضورﷺ نے وہ چھڑی ان کو دی اور خود حضورﷺ پر دو کُرتے تھے، حضورﷺ انھیں اوپر اٹھانے لگے۔ اس پر لوگوں نے انھیں ڈانٹا اور بدلہ لینے سے روکا، لیکن جب حضورﷺ کے جسم مبارک کا وہ حصہ نظر آیا جہاں خود اُن کو زخم لگا تھا تو چھڑی پھینک کر حضورﷺ کو چمٹ گئے اور حضورﷺ کو چومنے لگ گئے اور عرض کیا: یا نبی اللہ! میں اپنا بدلہ چھوڑ دیتا ہوں تاکہ آپ میری قیا مت کے دن سفارش فرمائیں۔1 حضورﷺ سے صحابۂ کرامؓ کی محبت کے عنوان کے ذیل میں حضرت حصین بن وَحوح ؓ کی روایت گزر چکی ہے کہ حضرت طلحہ بن براء ؓ جب حضورﷺ سے ملتے تو آپ سے چمٹ جاتے اور آپ کے دونوں قدموں کے بوسے لینے شروع کر دیتے۔ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا حضورﷺ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی کا بوسہ لینے کا تذکرہ عنقریب آئے گا۔حضورﷺ کے شہید ہو جانے کی خبر کے مشہور ہونے پر صحابۂ کرام ؓ کا رونا اور آپ کو بچانے کے لیے ان سے جو کارنامے ظاہر ہوئے ان کا بیان حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: جنگِ اُحد کے دن اہلِ مدینہ کو شکست ہوگئی تو لوگوں نے کہا: حضرت محمدﷺ قتل ہوگئے ہیں۔ (یہ خبر سن کر سب مردوں، عورتوں نے رونا شروع کر دیا) اور مدینے کے کونے کونے سے رونے والی عورتوں کی آوازیں بہت آنے لگیں۔ چناںچہ ایک اَنصاری عورت پردے میں مدینہ سے نکلی (اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑی)۔ ان کے والد، بیٹے، خاوند اور بھائی چاروں اس جنگ میں شہید ہو چکے تھے۔ یہ ان کے پاس سے گزریں۔ راوی کہتے ہیں: مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے پہلے کس کے پاس سے گزریں۔ جب بھی ان میں سے کسی ایک کے پاس سے گزرتیں تو پوچھتیں: یہ کون ہے؟ لوگ بتاتے کہ یہ تمہارے والد ہیں، بھائی ہیں، خاوند ہیں، بیٹے ہیں۔ وہ جواب میں یہی کہتیں کہ اللہ کے رسولﷺ کا کیا ہوا؟ لوگ کہتے: حضورﷺ آگے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حضورﷺ تک پہنچ گئیں اور حضورﷺ کے کپڑے کے ایک کونے کو پکڑ کر کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! جب آپ صحیح سالم ہیں تو مجھے اپنے مر جانے والوں کی کوئی پروا نہیں۔1 حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں: جنگِ اُحد کے دن میں حضورﷺ کے ساتھ مدینہ میں رہا۔ اس دن حضورﷺ کے صحابہ ؓ میں سے کوئی مدینہ منوّرہ میں نہیں رہا تھا (سارے ہی جنگ میں شریک تھے۔ جنگ بہت سخت تھی) اور شُہَدا کی تعداد بڑھتی جا