حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضور ﷺ کی آنکھیں ڈُبڈبا آئیں اور آپ نے فرمایا: یہ ٹھیک کہتا ہے، مجھ سے زیادہ عدل کرنے کا حق دار کون ہوسکتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ اس اُمت کو پاک نہیں فرماتے جس کا کمزور آدمی طاقت ور سے اپنا حق نہ لے سکے اور نہ اس پر زور دے سکے۔ پھر فرمایا: اے خولہ ! اسے گن کر ادا کر دو، کیوںکہ جس مقروض کے پاس سے قرض خواہ خوش ہو کر جائے گا اس کے لیے زمین کے جانور اور سمندروں کی مچھلیاں دعا کریں گی۔ اور جس مقروض کے پاس قرضہ کی ادائیگی کے لیے مال ہے اور وہ ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر دن اور رات کے بدلہ میں اس کے لیے ایک گناہ لکھتے ہیں۔1حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا عدل واِنصاف حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جمعہ کے دن کھڑے ہو کر فرمایا: جب صبح ہو تو تم صدقہ کے اونٹ ہمارے پاس لے آؤ ہم انھیں تقسیم کریں گے اور ہمارے پاس اجازت کے بغیر کوئی نہ آئے۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا: یہ نکیل لے جاؤ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کوئی اُونٹ دے دے۔ چناںچہ وہ آدمی گیا۔ اس نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ اونٹوں میں داخل ہو رہے ہیں، یہ بھی ان دونوں حضرات کے ساتھ داخل ہوگیا۔ حضرت ابو بکر نے اسے دیکھ کر فرمایا: تم ہمارے پاس کیوں آگئے؟ پھر اس کے ہاتھ سے نکیل لے کر اسے ماری۔ جب حضرت ابوبکراُونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس آدمی کو بلایا اور اسے نکیل دی اور فرمایا: تم اپنا بدلہ لے لو۔ تو حضرت عمر نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! یہ آپ سے بدلہ بالکل نہیں لے گا، آپ اسے مستقل عادت نہ بنائیں (کہ امیر تنبیہ کرنے کے لیے کسی کو سزا دے تو اس سے بدلہ لیا جائے)۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: مجھے قیامت کے دن اللہ سے کون بچائے گا؟ (ان حضرات میں اللہ کا خوف بہت زیادہ تھا) حضرت عمر نے کہا: آپ (اسے کچھ دے کر) راضی کرلیں۔ حضرت ابو بکر نے اپنے غلام سے کہا: تم میرے پاس ایک اُونٹ، اس کا کجاوہ اور ایک کمبل اورپانچ دینار لاؤ۔ چناںچہ یہ سب کچھ اس آدمی کو دے کر اسے راضی کیا۔1حضرت عمر فاروق ؓ کا عدل واِنصاف حضرت شَعبی ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر اور حضرت اُبی بن کعب ؓ کے درمیان (کھجور کے ایک درخت کے بارے میں) جھگڑا ہوگیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: آؤ ہم آپس کے فیصلے کے لیے کسی کو ثالث مقرر کرلیتے ہیں۔ چناںچہ ان دونوں حضرات نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو اپنا ثالث بنالیا۔ یہ دونوں حضرات حضرت زید کے پاس گئے اور حضرت عمر نے فرمایا: ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کر دیں۔ (اور امیر المؤمنین ہو کر میں خود آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کیوںکہ قاعدہ یہ ہے کہ) فیصلہ کروانے والے خود ثالث کے گھر آیا کرتے ہیں۔ جب دونوں