حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے لا لچ میں رو رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ با ت با لکل نہیں ہے، بلکہ میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ حضور ﷺ نے ہمیں ایک وصیت فرمائی تھی ہم اس پر عمل نہیں کر سکے۔ حضر ت معا ویہ نے پوچھا: وہ کیا وصیت تھی؟ حضرت ابو ہاشم نے کہا: میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی نے مال جمع کر نا ہی ہے تو ایک خادم اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ایک سواری کافی ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے آج (اس سے زیادہ) مال جمع کر رکھا ہے۔ ابنِ ما جہ کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت سَمُرہ بن سہم کی قوم کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہاشم بن عتبہؓ کا مہمان بنا تو اُن کے پاس حضرت معاویہ ؓ آئے۔ ’’ابنِ حَبَّان‘‘ کی روایت میں ہے کہ حضرت سَمُرہ بن سہم کہتے ہیں: میں حضرت ابو ہاشم بن عتبہؓ کا مہمان بنا تو وہ طاعون کی بیماری میں مبتلا تھے۔ پھر اُن کے پاس حضرت معاویہ آئے۔ اور ’’رزین‘‘ کی روایت میں یہ ہے کہ جب حضرت ابو ہاشم ؓ کا انتقال ہوگیا تو اُن کے ترکہ کا حساب کیا گیا تو اس کی قیمت تیس درہم بنی تھی۔ اور اس میں وہ پیالہ بھی شما ر کیا گیا جس میں وہ آٹا گوندھا کرتے تھے اور اسی میں وہ کھاتے تھے۔1حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓ کا دنیا کی کثرت اور وسعت پر ڈرنا اور رونا حضرت عبد اللہ بن عامر کے آزادکر دہ غلام حضرت ابو حسنہ مسلم بن اَکْیَس ؓ کہتے ہیں: ایک صاحب حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓ کی خدمت میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔ تو انھوں نے کہا: اے ابو عبیدہ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت ابو عبیدہ نے کہا: اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ ایک دن حضورﷺ نے ان فتوحا ت اور مالِ غنیمت کا تذکرہ کیا جو اللہ تعالیٰ مسلما نوں کو عطا فرمائیں گے۔ اس میں ملکِ شام فتح ہونے کا بھی ذکر فرمایا اور فرمایا: اے ابو عبیدہ! اگر تم (ان فتوحات تک) زندہ رہے تو تمھیں تین خادم کا فی ہیں: ایک تمہاری روز مرہ کی خدمت کے لیے اور دوسرا تمہارے ساتھ سفر کرنے کے لیے، اور تیسرا تمہارے گھر والوں کی خدمت کے لیے جو اُن کے کام کرتا رہے۔ اور تین سواریاں تمھیں کا فی ہیں: ایک سواری تمہارے گھر کے لیے، دوسری سواری تمہارے اِدھر اُدھر آنے جانے کے لیے، تیسری سواری تمہارے غلام کے لیے۔ (اب حضورﷺ نے تو تین خادم اور تین سواریاں رکھنے کو فرمایا تھا) اور میں اپنے گھر کو دیکھتا ہو ں تو وہ غلاموں سے بھرا ہوا ہے۔ اور اپنے اصطبل کو دیکھتا ہوں تو وہ گھوڑوں اور جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ اب میں اس کے بعد حضورﷺ سے کس منہ سے ملاقات کروں گا جب کہ آپ نے ہمیں یہ تاکید فرمائی تھی کہ تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (قیامت کے دن) مجھے اسی حال میں ملے جس حال میں مجھ سے جدا ہواتھا۔1