حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی جان دے کر دوسرے مسلمانوں کی جان بچانا چاہتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں: (حضرت عثمان کے اس فرمان پر) میں نے اپنی تلوار پھینک دی اور اب تک مجھے خبر نہیں وہ کہاں ہے؟ 2حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا اپنے امیروں کو وصیت کرنا حضرت مہاجر عامری ؓ کہتے ہیں: حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اپنے ایک ساتھی کو ایک شہر کا گورنر بنا رکھا تھا۔ اسے یہ خط لکھا: اَمابعد! تم اپنی رعایا سے زیادہ دیر غائب نہ رہو (جب کسی ضرورت کی وجہ سے ان سے الگ ہونا پڑے تو ان کے پاس جلدی واپس آجاؤ) کیوںکہ امیر کے رعایا سے الگ رہنے کی وجہ سے لوگ تنگ ہوں گے اور خود امیر کو لوگوں کے حالات تھوڑے معلوم ہوسکیں گے، بلکہ جن سے الگ رہے گا ان کے حالات بالکل معلوم نہ ہوسکیں گے۔ (جب امیر لوگوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھے گا بلکہ الگ رہے گا تو اسے سنی سنائی باتوں پر ہی کام چلا نا پڑے گا، اس طرح سارا دار ومدار سنانے والوں پر آجائے گا اور سنانے والوں میں غلط لوگ بھی ہوسکتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ) پھر اس کے سامنے بڑی چیز کو چھوٹا اور چھوٹی چیز کو بڑا، اور اچھی چیز کو برا اور بری چیز کو اچھا بنا کر پیش کیا جائے گا اور یوں حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجائے گا۔ اور امیر بھی انسان ہی ہے۔ لوگ اس سے چھپ کر جو کام کر رہے ہیں وہ ان کو نہیں جانتا ہے۔ اور انسان کی ہربات پر ایسی نشانیاں نہیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چل سکے کہ اس کی یہ بات سچی ہے یا جھوٹی۔ لہٰذا اب اس کا حل یہی ہے کہ امیر اپنے پاس لوگوں کی آمد ورفت کو آسان اور عام رکھے (جب لوگ اس کے پاس زیادہ آئیں گے تو اسے حالات زیادہ معلوم ہوسکیں گے او ر پھر یہ فیصلہ صحیح کرسکے گا)۔ اور اس طرح یہ امیر ہر ایک کو اس کا حق دے سکے گا اور ایک کا دوسرے کو دینے سے محفوظ رہے گا۔ لہٰذا تم ان دو قسم کے آدمیوں میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے: یا تو تم سخی آدمی ہوگے اور حق میں خرچ کرنے میں تمہارا ہاتھ بہت کھلا ہوگا۔ اگر تم ایسے ہو اور تم نے لوگوں کو دینا ہی ہے اور ان سے اچھے اخلاق سے پیش آنا ہی ہے تو پھر تمہیں لوگوں سے الگ رہنے کی کیا ضرورت؟ اور اگر تم کنجوس ہو، اپنا سب کچھ روک کر رکھنے کی طبیعت رکھتے ہو تو پھرتولوگ چند دن تمہارے پاس آئیں گے اور جب انھیں تم سے کچھ ملے گا نہیں تو وہ خود ہی مایوس ہو کر تمہارے پاس آنا چھوڑ دیں گے، اس صورت میں بھی تمہیں ان سے الگ رہنے کی ضرورت نہیںہے۔ اور ویسے بھی لوگ تمہارے پاس اپنی ضرورتیں ہی لے کر آتے ہیں کہ یا توکسی ظالم کی شکایت کریں گے یا تم سے انصاف کے طالب ہوں گے۔ اور یہ ضرورتیں ایسی ہیں کہ ان کے پورا کرنے میں تم پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ (لہٰذا لوگوں سے الگ رہنے کی ضرورت نہیں ہے) اس لیے میں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کرکے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اور میں تمہیں صرف وہی باتیں لکھ رہا ہوں جن میں تمہارا فائدہ ہے اور جن سے تمہیں ہدایت ملے گی اِن شاء اللہ۔ 1 حضرت مدائنی ؓ کہتے ہیں: حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اپنے ایک امیر کو یہ خط لکھا: ٹھہرو اور یوں سمجھو کہ تم زندگی کے آخری کنارے پر پہنچ گئے ہو۔ تمہاری موت کا وقت آگیا ہے، اور تمہارے اعمال تمہارے سامنے اس جگہ پیش کیے جارہے ہیں جہاں دنیا کے دھوکہ میں پڑا ہوا ہائے حسرت پکارے گا، اور زندگی ضائع کرنے والا تمنا کرے گا کہ کاش! میں توبہ