حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کوئی حکم دے تو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دینا حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ایک مرتبہ حضرت اُبی بن کعب ؓ کی (پڑھی ہوئی)ایک آیت کا انکار کیا (کہ یہ قرآن میں نہیںہے، یا قرآن میں اس طرح نہیں ہے)۔ حضرت اُبی نے کہا: میں نے اس آیت کو حضور ﷺ سے سنا ہے اور تم تو بَقِیْع بازار میں خرید وفروخت میں مشغول رہا کرتے تھے (اس لیے تمہیں یہ آیت حضور ﷺ سے سننے کا موقع نہیں ملا)۔ حضرت عمر نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا، میں نے تمہاری آیت کا قصداً اِنکار تم لوگوں کو آزمانے کے لیے کیا تاکہ پتہ چلے کہ تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو (امیر کے سامنے) حق بات کہہ سکے ۔ اس امیر میں کوئی خیر نہیں ہے جس کے سامنے حق بات نہ کہی جا سکے اور نہ وہ خود حق بات کہہ سکے۔3 حضرت ابو مِجْلَز ؓکہتے ہیں: حضرت اُبی بن کعب ؓ نے یہ آیت پڑھی: {مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ} تو حضرت عمر نے ان سے فرمایا: تم نے غلط پڑھا۔ حضرت اُبی نے کہا: (میں نے ٹھیک پڑھا ہے) آپ کی غلطی زیادہ ہے۔ کسی آدمی نے (حضرت اُ بی سے کہا): آپ امیر المؤمنین (کی بات) کو غلط کہہ رہے ہیں۔ حضرت اُبی نے کہا: میں تم سے زیادہ امیرالمؤمنین کی تعظیم کرنے والا ہوں، لیکن چوںکہ ان کی بات قرآن کے خلاف تھی اس وجہ سے میں نے قرآن کے مقابلہ میں ان کی بات کو غلط کہا ہے، اور یہ نہیں ہو سکتا کہ میں قرآن کو غلط کہوں اور امیر المؤمنین کی (غلط )بات کو ٹھیک کہوں ۔ حضرت عمر نے فرمایا: حضرت اُبی ٹھیک کہتے ہیں۔1 حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ ایک مجلس میں تھے اور ان کے اِردگرد حضراتِ مہاجرین اور اَنصار بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا: ذرا یہ بتانا کہ اگر میں کسی کام میں ڈھیل برتوں تو تم کیا کرو گے؟ تمام حضرات اَدباًخاموش رہے۔ حضرت عمر نے اپنی اس بات کو دو تین مرتبہ دہرایا تو حضرت بشیر بن سعد نے فرمایا: اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کردیں گے جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت عمر نے (خوش ہو کر) فرمایا: پھر تو تم لوگ ہی (امیر کی مجلس میں بیٹھنے کے قابل ہو) پھر تو تم لوگ ہی (امیر کی مجلس کے قابل ہو)۔ 2 حضرت موسیٰ بن ابی عیسیٰ ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ قبیلہ بنو حارثہ کی پانی کی سبیل کے پاس آئے ، وہاں انھیں حضرت محمد بن مَسْلَمہ ؓ ملے۔ حضر ت عمر نے فرمایا: اے محمد! مجھے کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کو ویسا پاتا ہوں جیسا میں چاہتا ہوں اور جیسا ہر وہ آدمی چاہتا ہے جو آپ کے لیے بھلا چاہتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مال جمع کرنے میں خوب زور دار ہیں، لیکن آپ خود مال سے بچتے ہیں اور اسے انصاف سے تقسیم کرتے ہیں۔ اگر آپ ٹیڑھے ہو گئے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کر دیں گے جیسے اَوزار سے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے (خوش ہو کر) فرمایا: اچھا