حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہت پسند کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں تکبّر اور عُجب سے منع فرمایا ہے، اور میرا حال یہ ہے کہ مجھے خوب صورتی بہت پسند ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنے سے روکا ہے اور میری آواز بہت اونچی ہے (جو آپ کی آواز سے اونچی ہو جاتی ہے)۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے ثابت! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ قابلِ تعریف زندگی گزارو اور تمھیں شہادت کا مرتبہ ملے اور اللہ تمھیں جنت میں داخل کرے؟ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! حضرت محمد بن ثابت کہتے ہیں: حضورﷺ کا فرمان پورا ہوا اور حضرت ثابت نے واقعی قابلِ تعریف زندگی گزاری اور مُسَیلمہ کذّاب سے جنگ میں شہادت کا مرتبہ پایا۔1صحابۂ کرامؓ کا نبی کریم ﷺ کا اتباع کرنا حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: حضورﷺ کا ایک بوریا تھا جس کا رات کو حجرہ سا بناکر اس میں آپ نماز پڑھا کرتے اور دن کو اسے بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے۔ آہستہ آہستہ لوگ بھی حضور ﷺ کے پاس آکر آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے (یہ تراویح کی نماز تھی)۔ جب لوگ زیادہ ہوگئے توآپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے لوگو! تم اعمال اتنے اختیار کرو جتنے اعمال کی پابندی تمہارے بس میں ہے، کیوںکہ جب تک تم ( عمل کرنے سے) نہیں اکتاؤ گے اس وقت تک اللہ تعالیٰ (ثواب دینے کا سلسلہ) نہیں روکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جو ہمیشہ ہو چاہے تھوڑا ہو۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ کے گھر والے اور خصوصی تعلق والے جب کوئی عمل شروع کرتے تو پوری پابندی اور اہتمام سے اسے کرتے۔2 حضرت انس بن مالک ؓ نے حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی (اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھی) تو لوگوں نے انگوٹھیا ں بنوا کر پہن لیں۔ بعد میں حضور ﷺ نے وہ انگوٹھی اتار دی تو لوگوں نے بھی اتار دیں۔1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے وہ اتار دی اور فرمایا: آیندہ میں یہ انگوٹھی کبھی نہیں پہنوں گا۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار دیں۔2 حضرت سلمہ ؓ فرماتے ہیں: (صلحِ حدیبیہ کے موقع پر) قریش نے خارجہ بن کُرز کو مسلمانوں کی جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا تو اس نے واپس آکر مسلمانوں کی بڑی تعریف کی۔ اس پر قریش نے کہا: تم دیہاتی آدمی ہو، مسلمانوں نے تمہارے سامنے اپنے ہتھیاروں کو ذرا زور سے ہلایا جن کی آواز سے تمہارا دل اُڑ گیا (یعنی مر عوب ہوگیا)۔ تو پھر مسلمانوں نے تم سے کیا کہا اور تم نے ان کو کیا کہا اس سب کا تم کو پتا ہی نہ چل سکا۔ پھر قریش نے عر وہ بن مسعود ؓ کو بھیجا (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) انھوں نے آکر کہا: اے محمد! یہ کیا بات ہے؟ آپ اللہ کی ذات کی طرف دعوت دیتے ہو اور