حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! کیا میں نے آپ پر وسعت نہیں کی؟ اور کیا میں نے آپ کے ساتھ فلاں فلاں احسان نہیں کیے؟ حضرت ابو الدرداء نے کہا: اے عمر! کیا آپ کو وہ حدیث یاد نہیں ہے جو حضور ﷺ نے ہم سے بیان کی تھی؟ حضرت عمر نے پوچھا: کون سی حدیث؟ انھوں نے کہا: حضورﷺ نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی کے پاس زندگی گزارنے کا اتنا سامان ہونا چاہیے جتنا سوار کے پاس سفر کا توشہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: ہاں (یاد ہے)۔ حضرت ابو الدرداء نے کہا: اے عمر! حضورﷺ کے بعد ہم نے کیا کیا؟ پھر دونوں ایک دوسرے کو حضورﷺ کی باتیں یاد دلا کر صبح تک روتے رہے۔حضرت معاذ بن عفراء ؓ کا زہد حضر ت ابو ایوب ؓ کے غلام حضرت افلح ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓحکم دے کر اہلِ بدر کے لیے خاص طور سے بڑے عمدہ جوڑوں کا کپڑا تیار کرواتے تھے۔ (پھر اس سے جوڑے بنا کر اہلِ بدر کو بھیجا کرتے تھے) چناںچہ انھوں نے حضرت معاذ بن عفراء ؓ کو ان میں سے ایک جوڑا بھیجا۔ حضرت معاذ نے مجھ سے فرمایا: اے افلح! یہ جوڑا بیچ دو۔ میں نے وہ جوڑا ڈیڑھ ہزار درہم میں بیچا تو انھوں نے فرمایا: جائو ڈیڑھ ہزار درہم کے میرے لیے غلام خرید لائو۔ میں پانچ غلام خرید لایا۔ انھیںدیکھ کر فرمایا: جو آدمی ڈیڑھ ہزار درہم کے پا نچ غلام خرید کر انھیں آزاد کر سکتا ہے، وہ اس رقم کے دو چھلکے (لنگی اور چادر کے) پہن لے واقعی وہ بہت بے وقوف ہے۔ (اے غلامو!) جاؤ تم سب آزاد ہو۔ حضرت عمر کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عمر حضرت معاذ کے پاس جوجوڑے بھیجتے ہیںحضرت معاذ انھیں پہنتے نہیںہیں، تو حضرت عمر نے ان کے لیے سو درہم کا ایک موٹا جوڑا بنوا کر ان کے پاس بھیج دیا۔ جب قاصد وہ جوڑا لے کر ان کے پاس آیا تو حضرت معاذ نے فرمایا: میرا خیال یہ ہے کہ حضرت عمر نے یہ جوڑا دے کر تمھیں میرے پاس نہیں بھیجا۔ اس قاصد نے کہا: نہیں، آپ کے پاس ہی بھیجا ہے۔ انھوں نے وہ جوڑا لیا اور لے کر حضرت عمر کی خدمت میں آئے اور کہا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ نے یہ جوڑا میرے پاس بھیجا ہے؟ حضرت عمر نے فرمایا: ہا ں، میں نے بھیجا ہے۔ ہم پہلے تمہارے پاس ان (قیمتی) جو ڑوں میں سے بھجوایا کرتے تھے جو تمہارے اور تمہارے (بدری) بھائیوں کے لیے بنوایاکرتے تھے، لیکن مجھے پتا چلا کہ تم اسے پہنتے نہیں ہو (اس لیے اس دفعہ میں نے تمہارے پاس یہ معمولی جوڑا بھیج دیا)۔ انھوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! میں اگرچہ وہ جوڑا پہنتا نہیں، لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس جو بہترین چیز ہے مجھے اس میں سے ملے۔ چناںچہ حضرت عمر نے ان کو حسبِ سابق وہی عمدہ جوڑا دے دیا۔1