حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمایا: اچھا کپڑے کے نیچے جتنے درہم ہیں وہ سب تمہارے۔ ہمیں کپڑے کے نیچے پچاسی در ہم ملے۔ اس کے بعد آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر حضرت زینب نے یہ دعا مانگی: اے اللہ! اس سال کے بعد مجھے حضرت عمر کی عطا نہ ملے۔ چناںچہ (ان کی دعا قبول ہوگئی اور) ان کا انتقال ہوگیا ۔2 حضرت محمد بن کعب ؓ کہتے ہیں: حضرت زینب بنتِ جحش ؓ کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار تھا، اور وہ بھی انھوں نے صرف ایک سال لیا اورلینے کے بعد یہ دعا فر مائی: اے اللہ! آیندہ سال یہ مال مجھے نہ ملے، کیوںکہ یہ فتنہ ہی ہے۔ (آیندہ سال سے پہلے ہی مجھے اٹھا لے) پھر اپنے رشتہ دار وں اور ضرورت مندوں میں سارا تقسیم کر دیا۔ حضر ت عمر ؓ کو پتہ چلا کہ انھوں نے سارا مال خرچ کر دیا ہے تو انھوں نے فرمایا: یہ ایسی (بلند مرتبہ) خاتون ہیں جن کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا ہی ارادہ کیا ہے۔ چناںچہ حضرت عمر گئے اور ان کے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر سلام بھجوایا اور کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے سارا مال تقسیم کر دیا ہے، یہ میں ایک ہزار اور بھیج رہا ہوں اسے آپ اپنے پاس رکھیں (ایک دم خرچ نہ کر دیں) لیکن جب یہ ایک ہزار درہم ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے ان کو بھی پہلے کی طرح تقسیم کر دیا۔1دودھ پیتے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر کرنا حضرت ابنِ عمر ؓ فر ماتے ہیں: ایک تجارتی قافلہ مدینہ منوّرہ آیا اور انھوں نے عید گاہ میں قیام کیا۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے فرمایا: کیا تم اس بات کے لیے تیار ہو کہ ہم دونوں اس قافلہ کا چوروں سے پہرہ دیں؟ (انھوں نے کہا: ٹھیک ہے) چناںچہ یہ دونوں حضرات رات بھر قافلہ کا پہر ہ بھی دیتے رہے اور باری باری نماز بھی پڑھتے رہے۔ حضرت عمر نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو انھوں نے جاکر اس کی ماں سے کہا: اللہ سے ڈر اور اپنے بچے کا خیال کر۔ اور پھر حضرت عمر اپنی جگہ واپس آگئے۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنی تو حضرت عمر نے جا کر دوبارہ اس کی ماں کو وہی بات کہی اور اپنی جگہ واپس آگئے۔ جب آخر رات ہوئی تو پھر انھوں نے اس بچے کے رونے کی آواز سنی تو جا کر اس کی ماں سے کہا: تیرا بھلا ہو! میرا خیال ہے کہ تو بچے کے حق میں بری ماں ہے۔ کیا بات ہے کہ تیرا بیٹا آج ساری رات آرام نہ کر سکا؟ اس عور ت نے کہا: اے اللہ کے بندے! آج رات تو (بار بار آکر) تم نے مجھے تنگ کر دیا۔ میں بہلا پھسلا کر ا س کا دودھ چھڑا نا چاہتی ہوں لیکن یہ مانتا نہیں۔ حضرت عمر نے پوچھا: تم اس کا دودھ کیوں چھڑانا چاہتی ہو؟ اس عورت نے کہا: کیوںکہ حضرت عمر صرف اس بچے کا وظیفہ مقرر کر تے ہیں جو دودھ چھوڑ چکا ہو۔ حضرت عمر نے پوچھا: اس بچے کی عمر کیا ہے؟ اس عورت نے کہا: اتنے مہینے کا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تیرابھلا ہو! اس کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کر۔ (پھر آ پ وہاں سے واپس آئے) اور فجر کی