حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لے گئے۔ چاشت کے وقت مکّہ مکرّمہ داخل ہوئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ (حضرت ابو بکر کے والد) حضرت ابو قحافہ ؓ اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، ان کے پاس کچھ نوجوان بیٹھے ہوئے تھے جن سے وہ باتیں کر رہے تھے۔ کسی نے ان کو بتایا کہ یہ آپ کے بیٹے آگئے ہیں تو وہ کھڑے ہوگئے، لیکن حضرت ابو بکر اونٹنی بٹھائے بغیر جلدی سے اونٹنی سے نیچے اُترگئے اور کہنے لگے: اے ابّاجان! آپ کھڑے نہ ہوں۔ پھر ان سے مل کر ان سے چِمٹ گئے اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اور بڑے میاں یعنی حضرت ابو قحافہ حضرت ابو بکر کے آنے کی خوشی میں رو پڑے۔ مکّہ کے ذمّہ دار اور سردار حضرات حضرت عَتّاب بن اُسید، حضرت سہیل بن عمرو، حضرت عکرمہ بن ابی جہل، حضرت حارث بن ہشام ؓ ملنے آئے اور انھوں نے حضرت ابو بکر کو سلام کیا اور یوں کہا: سلامٌ علیک اے خلیفۂ رسول اللہ! اور سب نے ان سے مصافحہ کیا۔ پھر جب انھوں نے حضور ﷺ کا تذکرہ شروع کیا تو حضرت ابو بکر رونے لگے۔ پھر ان سب نے حضرت ابوقحافہ کو سلام کیا۔ حضرت ابوقحافہ نے (حضرت ابو بکر کا نام لے کر) کہا: اے عتیق! یہ لوگ مکّہ کے سردار ہیں ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے رہنا۔ حضرت ابو بکر نے کہا: اے ابا جان! اللہ کی مدد سے ہی انسان نیکی کرسکتا ہے اور برائی سے بچ سکتا ہے، اور مجھ پر (خلافت کے) بہت بڑے کام کی ذمّہ داری ڈال دی گئی ہے جسے ادا کرنے کی مجھ میں بالکل طاقت نہیں ہے۔ ہاں! اللہ مدد فرمائے تو پھر یہ ذمّہ داری ادا ہوسکتی ہے۔ پھر حضرت ابوبکرگھر گئے اور غسل کیا اور باہر آئے۔ آپ کے ساتھی آپ کے پیچھے چلنے لگے، آپ نے ان کو ہٹا دیا اور فرمایا: آرام سے چلو! (میرے پیچھے بھیڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے)۔ راستہ میں لوگ حضرت ابو بکر کو ملتے، ان کے ساتھ چلتے اور ان سے حضور ﷺ کی تعزیت کرتے۔ اور حضرت ابو بکر روتے جا رہے تھے یہاں تک کہ بیت اللہ تک پہنچ گئے۔ پھر آپ نے طواف کے لیے اِضطباع کیا۔ (یعنی دائیں کندھے کے نیچے سے اِحرام کی چادر نکال کر اس کے دونوں کنارے بائیں کندھے پر ڈال دیے) پھر حجرِ اسود کا بوسہ لے کر سات چکر لگائے، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے گھر واپس آگئے۔ جب ظہر کا وقت ہوا تو گھر سے باہر آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر دار النّدوہ کے قریب بیٹھ گئے اور فرمایا: کوئی آدمی ایسا ہے جو کسی ظلم کی شکایات لایا ہو یا کسی حق کا مطالبہ کر رہا ہو؟ اس پر کوئی نہ آیا تولوگوں نے اپنے امیر (حضرت عَتّاب بن اُسید) کی تعریف کی۔ پھر عصر کی نماز پڑھائی اور بیٹھ گئے۔ پھر لوگوں نے ان کو رخصت کیا اور یہ مدینہ منوّرہ کو واپس ہوگئے۔ ۱۲ ھ میں لوگوں کے ساتھ حضرت ابو بکر ؓ نے خود حج کیا اور صرف حج کا اِحرام باندھا جسے ’’اِفراد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اپنا نائب بنایا۔1حضرت عمیر بن سعد اَنصاری ؓ کا قصہ