حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیٹھے ہوئے تھے۔ میںآپ کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا اور میں نے آپ کو اشارہ کیا (کہ کھانے کے لیے تشریف لے چلیں)۔ تو حضور ﷺ نے مجھے اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ لوگ بھی (کھانے کے لیے ساتھ چلیں؟) میں نے کہا: نہیں۔ حضور ﷺ خاموش ہوگئے۔ میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ حضور ﷺ نے جب دوبارہ مجھے دیکھا تو میں نے حضور ﷺ کو اشارہ کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اور یہ لوگ بھی؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضور ﷺ نے اس طرح دو یا تین مرتبہ فرمایا تو میں نے کہا: اچھا، یہ لوگ بھی (آجائیں)۔ وہ تھوڑا سا کھانا تھا جسے میں نے حضور ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ چناںچہ حضور ﷺ بھی تشریف لائے اور آپ کے ساتھ وہ لوگ بھی آئے اور ان سب نے کھایا ( اللہ نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ) کھانا پھر بھی بچ گیا۔ 2حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا کھانا کھلانا حضرت محمد بن قیس ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ صرف غریبوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے، (اور ان کا کھانا اکثر غریب لوگ ہی کھاجایا کرتے اور یہ بھوکے رہ جاتے) اس کی وجہ سے ان کا جسم کمزور ہوگیا تھا۔ تو اُن کی بیوی نے ان کے لیے کھجوروں کا کوئی شربت تیار کیا۔ جب یہ کھانے سے فارغ ہوجاتے تو وہ ان کو یہ شربت پلا دیتیں۔ اور حضرت ابوبکر بن حفص ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کھانا تب کھاتے جب ان کے دسترخوان پر کوئی یتیم ہوتا۔3 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر ؓ جب بھی دوپہر کا یا رات کا کھانا کھاتے تو اپنے آس پاس کے یتیموں کو بلا لیتے۔ ایک دن دوپہر کا کھانا کھانے لگے تو ایک یتیم کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا لیکن وہ یتیم ملا نہیں (اس لیے یتیم کے بغیر کھانا شروع کر دیا)۔ حضرت ابنِ عمر کے لیے میٹھے ستّو تیار کیے جاتے تھے جسے وہ کھانے کے بعد پیا کرتے تھے۔ چناںچہ وہ یتیم آگیا اور یہ حضرات کھانے سے فارغ ہوچکے تھے۔ حضرت ابنِ عمر نے اپنے ہاتھ میں پینے کے لیے ستّو (کا پیالہ) پکڑا ہوا تھا تو وہ پیالہ اس یتیم کو دے دیا اور فرمایا: یہ لو، میرا خیال ہے تم نقصان میں نہیں رہے۔ حضرت میمون بن مہران ؓ کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمر ؓ کی بیوی پر کچھ لوگ حضرت ابنِ عمر کے بارے میں ناراض ہوئے اور ان سے کہا کہ کیا تم ان بڑے میاں پر ترس نہیں کھاتی ہو کہ یہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں؟ (انھیں کچھ کھلایا پلایا کرو) تو انھوں نے کہا: میں ان کا کیا کروں؟ جب بھی ہم ان کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں تو وہ ضرور اور لوگوں کو بلا لیتے ہیں جو سارا کھانا کھاجاتے ہیں۔ ( یوں دوسروں کو کھلا دیتے ہیں خود کھاتے نہیں) حضرت ابنِ عمر جب مسجد سے نکلتے تو کچھ غریب لوگ ان کے راستہ میں بیٹھ جاتے تھے (جن کو حضرت ابنِ عمر ساتھ گھر لے آتے اور ان کو اپنے کھانے میں شریک کرلیتے)۔ ان کی بیوی نے ان غریبوں کے پاس مستقل کھانا پہلے سے بھیج دیا اور ان سے کہلا بھیجا کہ تم یہ کھانا کھالو اور چلے