حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(یعنی وہاں کے مستحقین میں تقسیم کر دیے)۔ 4امیر پر رعایا کے حقوق حضرت اَسود (بن یزید) ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ کے پاس کوئی وفد آتا تو ان سے ان کے امیر کے بارے میں پوچھتے کہ کیا وہ بیمار کی عیادت کر تا ہے؟ کیا غلام کی بات سنتا ہے؟ جو ضرور ت مند اس کے دروازے پر کھڑا ہو تا ہے اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ اگر وفد والے ان باتوں میں سے کسی کے جواب میں’’نہ‘‘کہہ دیتے تو اس امیر کو معزول کر دیتے۔1 حضرت ابراہیم ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ کسی کو (کسی علاقہ کا) گورنر بنا تے اور اس علاقہ سے ان کے پاس وفد آتا تو حضرت عمر اُن سے (اس گورنر کے بارے میں) پوچھتے کہ تمہارا امیر کیسا ہے؟ کیا وہ غلاموں کی عیادت کرتا ہے؟ کیا وہ جنازے کے ساتھ جاتا ہے؟ اس کا دروازہ کیسا ہے؟ کیاوہ نرم ہے؟ اگر وہ کہتے کہ اس کا دروازہ نرم ہے (ہر ایک کو اندر جانے کی اجازت ہے) اور غلاموں کی عیادت کر تا ہے تب تو اسے گورنر رہنے دیتے ورنہ آدمی بھیج کر اس کو گورنری سے ہٹادیتے ۔2 حضرت عاصم بن ابی نَجُود کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ جب اپنے گورنروں کو (مختلف علاقوں میں گورنر بنا کر) بھیجا کرتے تو اُن پر یہ شرطیں لگاتے کہ تم لوگ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوا کرو گے اور چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں کھایا کرو گے اور باریک کپڑا نہیں پہنا کرو گے اور حاجت مندوں پر اپنے دروازے بند نہیں کرو گے۔ اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کر لیا تو تم سزا کے حق دار بن جائو گے۔ پھر رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھوڑی دور چلتے۔ جب واپس آنے لگتے تو ان سے فرماتے: میں نے تم کو مسلمانوں کے خون (بہانے) پر اور ان کی کھال (ادھیڑنے) پر، اور انھیں بے آبرو کرنے پر، اور ان کے مال (چھیننے) پر مسلط نہیں کیا ہے، بلکہ میں تمہیں (اس علاقہ میں) اس لیے بھیج رہا ہوں تا کہ تم وہاں کے مسلمانوں میں نماز قائم کرو اور ان میں ان کا مالِ غنیمت تقسیم کرو اور ان میں انصاف کے فیصلے کرو۔ اور جب تمہیں کوئی ایسا امر پیش آجائے جس کا حکم تم پر واضح نہ ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔ ذرا غور سے سنو! عربوں کو نہ مارنا اس طرح تم ان کو ذلیل کردو گے، اور ان کو اسلامی سرحد پر جمع کر کے وطن واپسی سے روک نہ دینا اس طرح تم ان کو فتنہ میں ڈال دو گے، اور ان کے خلاف ایسے جرم کا دعویٰ نہ کرنا جو انھوں نے نہ کیا ہو اس طرح تم ان کو محروم کردو گے، اور قرآن کو (احادیث وغیرہ) سے الگ اور ممتاز کر کے رکھنایعنی قرآن کے ساتھ حدیثیں نہ ملانا۔1 حضرت ابوحُصَین سے اسی حدیث کے ہم معنیٰ مختصر حدیث مروی ہے، اور اس میں مزید یہ مضمون بھی ہے کہ قرآن کو