حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو کسی نے لے لی۔ جب حضورﷺ نے سلام پھیراتو اس دیہاتی نے کہا: میری رسی پتا نہیں کہاں چلی گئی؟ یہ سن کر کچھ لوگ ہنسنے لگے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا: جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ کسی مسلمان کو ہرگز پریشان نہ کرے۔2مسلمان کو ہلکا اور حقیر سمجھنا حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: حضرت اُسامہؓ ٹھوکر کھا کر دروازے کی چوکھٹ پر گرگئے جس سے ان کی پیشانی پر چوٹ لگ گئی۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اس کا خون صاف کر دو۔ مجھے ان سے ذرا گھن آئی۔ اس پر حضورﷺ ان کی چوٹ سے خون چوس کر تھوکنے لگے اور فرمانے لگے: اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے ایسے کپڑے پہناتا اور ایسے زیور پہناتا پھر میں اس کی شادی کر دیتا۔3 حضرت عطاء بن یسارؓ فرماتے ہیں: حضرت اُسامہ بن زیدؓ جب شروع میں مدینہ آئے تو ان کو چیچک نکل آئی اور وہ اس وقت اتنے چھوٹے تھے کہ ان کی رینٹ ان کے منہ پر بہتی رہتی تھی۔ حضرت عائشہؓ کو ان سے گھن آتی تھی۔ ایک دن حضور ﷺ گھر تشریف لائے اور حضرت اُسامہ کا منہ دھونے لگے اور انھیں چومنے لگے۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! حضورﷺ کے اس رویہ کو دیکھنے کے بعد اب میں کبھی بھی ان کو اپنے سے دور نہیں کروں گی۔1 حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کے انتظار میں عرفات سے (مزدلفہ کو) روانگی مؤخر فرما دی۔ جب حضرت اُسامہ آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ نو عمر لڑکے ہیں، ناک بیٹھی ہوئی ہے اور رنگ کالا ہے۔ اس پر یمن والوں نے کہا: اس (لڑکے) کی وجہ سے ہمیں اتنی دیر روکا گیا۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں: اسی وجہ سے یمن والے کفر میں مبتلا ہوئے۔ حضرت ابنِ سعد راوی کہتے ہیں: میں نے حضرت یزید بن ہارون سے پوچھا کہ حضرت عروہ جو یہ فرما رہے ہیں: ’’اسی وجہ سے یمن والے کفر میں مبتلا ہوئے‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں یمن والے جو مرتد ہوئے وہ حضورﷺ کے اس رویہ کو حقیر سمجھنے کی سزا میں ہوئے۔ ابنِ عساکر کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت عروہ نے فرمایا: حضورﷺ کی وفات کے بعد یمن والے حضرت اُسامہ (کو حقیر سمجھنے) کی وجہ سے ہی کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔2 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو موسیٰؓ کے پاس کچھ لوگ آئے۔ ان میں سے جو عر ب تھے ان کو تو حضرت ابو موسیٰ نے دیا اور جو عجمی غلام تھے ان کو نہ دیا۔ حضرت عمر ؓ (کو اس کا پتا چلا تو انھوں نے) حضرت ابو موسیٰ کو یہ لکھا کہ تم نے ان سب کو برابر کیوں نہ دیا؟ آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔3