حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی قسم! میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔2ارشادِ نبوی کے خلاف سر زد ہو جانے پر صحابۂ کرامؓ کا خوف وہراس حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے جنگِ بدر کے دن اپنے صحابہ سے فرمایا: مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ بنو ہاشم اور بعض دوسرے قبیلوں کے لوگوں کو یہاں زبر دستی لایا گیا ہے وہ ہم سے لڑنا نہیں چاہتے، لہٰذا تم میں سے جس کے سامنے بنو ہاشم کا کوئی آدمی آجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے۔ اور جس کے سامنے ابو ا لبَختَرِی بن ہشام بن حارث بن اسد آجائے وہ اسے قتل نہ کرے۔ اور جس کے سامنے عباس بن عبد المطلب حضورﷺ کے چچا آجائیں وہ انھیں قتل نہ کرے، کیوںکہ وہ بھی مجبوراً آئے ہیں۔ اس پر حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ؓ نے کہا: ہم تو اپنے باپ، بیٹوں اور بھائیوں کو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں؟ اللہ کی قسم! اگر عباس میرے سامنے آگئے تو میں تو تلوار سے ان کے ٹکڑے کر دوں گا۔ حضورﷺ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: اے ابو حفص! حضرت عمر کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ پہلا دن تھا جس دن حضورﷺ نے میری کنیت ابو حفص رکھی۔ (کنیت سے پکارنے کے بعد آپ نے فرمایا:) کیا رسول اللہ ﷺ کے چچا کے چہرے پر تلوار کا وار کیا جائے گا؟ حضرت عمر نے کہا: یارسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں تلوار سے ابو حذیفہ کی گردن اُڑا دوں۔ اللہ کی قسم! وہ تو منافق ہوگیا ہے۔ (اس وقت جوش میں حضرت ابو حذیفہ یہ بات کہہ بیٹھے، لیکن بعد میں) حضرت ابوحذیفہ نے کہا: میں اس دن جو (غلط) بات کہہ بیٹھا تھا میں اب تک اپنے کو (عذابِ خداوندی کے) خطرے میں محسوس کر رہا ہوں اور مجھ پر خوف طاری ہے، اور میرے اس گناہ کا کفارہ صرف اللہ کے راستے کی شہادت ہی ہو سکتی ہے۔ چناںچہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوگئے۔1 حضرت معبد بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے بنو قریظہ (کے یہودیوں) کا پچیس دن تک محاصرہ فرمایا، یہاں تک کہ اس محاصرے سے وہ سخت پریشان ہوگئے او ر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تو ان کے سردار کعب بن اسد نے بنو قریظہ پر تین باتیں پیش کیں: یا تو ایمان لے آؤ، یا اپنی عورتوں اور بچوں کو قتل کر کے اپنی موت کی تلاش میں قلعہ سے باہر نکل کر مسلمانوں سے میدانِ جنگ میں لڑو، یا ہفتہ کی رات میں مسلمانوں پر شب خون مارو۔ بنو قریظہ نے (سردار کی تینوں باتوں سے انکار کرتے ہوئے) کہا: ہم ایمان بھی نہیں لاسکتے اور (چوںکہ ہفتہ کی رات میں دشمن پر حملہ کرنا ہماری شریعت میں حرام ہے اس لیے) ہم ہفتہ کی رات میں لڑائی کو حلال قرار نہیں دے سکتے، اور اپنے بچوں اور