حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضر ت عطاء بن سائب ؓکہتے ہیں: جب مسلمان حضرت ابو بکر ؓ سے بیعت ہوگئے تو وہ حسبِ معمول صبح کو بازو پر چادریں ڈال کربازار جانے لگے۔ ان سے حضرت عمر ؓ نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ فرمایا: بازار جا رہا ہوں۔ حضرت عمر نے عرض کیا: آپ پر خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کی ذمہ داری آچکی ہے اس کا کیا کریں گے؟ فرمایا: پھر اہل وعیال کو کہاں سے کھلاؤں؟ حضرت عمر نے عرض کیا: حضرت ابو عبیدہ ؓ کے پاس چلیں وہ آپ کے لیے بیت المال سے کچھ مقرر کردیں گے۔ دونوں حضرات ان کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے ایک مہاجری کو اوسطاً جو ملتا تھا نہ کم نہ زیادہ، وہ مقرر کردیا۔ اور یہ بھی طے کیا کہ ایک جوڑا سردی میں ملا کرے گا اور ایک گرمی میں، لیکن پرانا جوڑا واپس کریں گے تو نیا ملے گا۔ اور روزانہ آدھی بکری کا گوشت ملے گا جس میں سری، کلیجی، دل، گردے وغیرہ نہیں ہوں گے۔1 حضرت حُمیَد بن ہلال ؓکہتے ہیں: جب حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ بنائے گئے تو حضورﷺ کے صحابہ ؓ نے کہا: رسول اللہ کے خلیفہ کے لیے اتنا وظیفہ مقرر کرو جو اُن کے لیے کا فی ہو۔ چناںچہ مقرر کرنے والوں نے کہا: ہا ں ٹھیک ہے۔ ایک تو ان کو (بیت المال سے) پہننے کے لیے دو چادریں ملا کریں گی، جب وہ پرانی ہوجایا کریں تو انھیں واپس کر کے ان جیسی اور دو نئی چادریں لے لیا کریں۔ اور دوسرے سفر کے لیے ان کو سواری ملا کرے گی۔ اور تیسرے خلیفہ بننے سے پہلے یہ اپنے گھر والوں کو جتنا خرچہ دیا کرتے تھے اتنا خرچہ ان کو ملا کرے گا۔ اس پر حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: میں اس پر راضی ہوں۔2حضرت عمر بن خطّاب ؓ کا زہد حضرت سالم بن عبد اللہ ؓکہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو انھوں نے حضرت ابو بکر ؓ والے اسی وظیفہ پر اکتفا کیا جو صحابہ ؓ نے اُن کے لیے مقرر کیا تھا۔ چناںچہ وہ کچھ عرصہ اتنا ہی لیتے رہے ، لیکن وہ ان کی ضرورت سے کم تھا اس لیے ان کے گزر میں تنگی ہونے لگی۔ تو مہاجرین کی ایک جما عت اکٹھی ہوئی جن میںحضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ بھی تھے۔حضرت زبیر نے کہا کہ اگر ہم حضرت عمر سے کہیں کہ ہم آپ کے وظیفہ میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں، تو یہ کیسا رہے گا؟ حضرت علی نے کہا:ہم تو پہلے سے ان کا وظیفہ بڑھانا چاہتے ہیں، چلو چلتے ہیں۔ حضرت عثمان نے کہا: یہ حضرت عمر ہیں، پہلے ہمیں اِدھر اُدھر سے ان کی رائے معلوم کرنی چاہیے (پھر ان سے براہِ راست با ت کرنی چاہیے)۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے حضرت عمر کی رائے معلوم کرتے ہیں۔ اور ان سے کہہ دیں گے کہ وہ حضرت عمر کو ہم لوگوں کے نام نہ بتائیں۔ چناںچہ یہ حضرات حضرت حفصہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آ پ یہ بات ایک جماعت کی طرف سے حضرت عمر سے کریں اور انھیں کسی کا نام نہ بتائیں، لیکن اگر وہ یہ بات مان لیں تو پھر نام بتانے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بات کہہ کر وہ