حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت شعبی ؓکہتے ہیں: حضرت علاء بن حضرمی ؓ بحرین میں تھے وہاں حضرت عمر ؓ نے ان کو یہ خط لکھا: تم حضرت عتبہ بن غَزْوان کے پاس چلے جاؤ۔ میں نے تم کو ان کے کام کا ذمہ دار بنایا ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم ایسے آدمی کے پاس جا رہے ہو جو اُن مہاجرینِ اوّلین میں سے ہے جن کے لیے اللہ کی طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہوچکی ہے۔ میں نے ان کو اَمارت سے اس لیے نہیں ہٹایا کہ وہ پاک دامن، قوی اور سخت لڑائی لڑنے والے نہیں تھے (بلکہ یہ تمام خوبیاں ان میں ہیں) بلکہ میں نے ان کو اس لیے ہٹایا ہے کہ میرے خیال میں تم اس علاقہ کے مسلمانوں کے لیے ان سے زیادہ مفید رہو گے۔ لہٰذا تم ان کا حق پہچاننا۔ تم سے پہلے میں نے ایک آدمی کو امیر بنایا تھا لیکن وہ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرگیا۔ اگر اللہ چاہیں گے تو تم وہاں کے امیر بن سکو گے، اور اگر اللہ یہ چاہیں کہ عتبہ ہی امیر رہے (اور تمہیں موت آجائے) تو پھر ایسا ہی ہوگا، کیوںکہ پید اکرنا اور حکم دینا ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ہی آسمان سے کوئی فیصلہ اُتارتے ہیں اور پھر اپنی صفتِ حفاظت سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں (اسے ضائع نہیں ہونے دیتے بلکہ وہ فیصلہ پورا ہو کر رہتا ہے)۔ اور تم تو صرف اس کام کو دیکھو جس کے لیے تم پیدا کیے گئے ہو، اس کے لیے پوری محنت وکوشش کرو۔ اور اس کے علاوہ اور تمام کاموں کو چھوڑ دو، کیوںکہ دنیا کے ختم ہونے کا وقت مقرر ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ تم دنیا کی ان نعمتوں میں مشغول ہو کر جو کہ ختم ہونے والی ہیں آخرت کے اس عذاب سے غافل نہ ہوجانا جو باقی رہنے والا ہے۔ اللہ کے غصہ سے بھاگ کر اللہ کی طرف آجاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہیں اس کے حکم اور علم میں پوری فضیلت جمع فرما دیں۔ ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے اس کی اِطاعت کرنے پر مدد اور اس کے عذاب سے نجات مانگتے ہیں۔1حضرت عمر بن خطّاب ؓکا حضرت ابوموسیٰ اَشْعرِی ؓ کو وصیت کرنا حضرت ضَبَّہ بن محصن ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یہ خط لکھا: اَما بعد! بعض دفعہ لوگوں کو اپنے بادشاہ سے نفرت ہوجایا کرتی ہے، میں اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے بارے میں لوگوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو۔ (اگر سارا دن حدودِ شرعیہ قائم نہ کرسکو تو) دن میں ایک گھڑی ہی حدود قائم کرو، لیکن روزانہ ضرور قائم کرو۔ جب دو کام ایسے پیش آجائیں کہ ان میں سے ایک اللہ کے لیے ہواور دوسرا دنیا کے لیے، تودنیا والے کام پر اللہ والے کو ترجیح دینا کیوںکہ دنیا تو ختم ہوجائے گی اور آخرت باقی رہے گی۔ اور بدکاروں کو ڈراتے رہو اور ان کو ایک جگہ نہ رہنے دو، بلکہ انھیں بکھیر دو (ورنہ اکٹھے ہوکر بدکاری کے منصوبے بناتے رہیں گے)۔ بیمار مسلمان کی عیادت کرو اور ان کے جنازے میں شرکت کرو اور اپنا دروازہ کھلا رکھو اور مسلمانوں کے کام خودکرو، کیوںکہ تم بھی ان میں سے ایک ہو، بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ نے تم پر ان سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے اور تمہارے گھر والوں نے لباس، کھانے اور سواری میں ایک خاص طرز اِختیار کرلیا ہے جو عام مسلمانوں میں نہیں ہے۔ اے عبد اللہ! تم اپنے آپ کو اس سے بچاؤ کہ تم اس جانور کی طرح سے ہوجاؤ جس کا سرسبز وادی پر گزر ہوا، اور اسے زیادہ سے زیادہ گھاس کھا کر موٹا ہوجانے کے علاوہ او رکوئی فکر نہ تھا۔ وہ زیادہ کھا کر موٹاتو ہوگیا لیکن اسی میں مرگیا۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ