حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓکا غور و فکر کرنا اور عبرت حاصل کرنا حضرت ابو ریحانہ ؓ کے آزادکردہ غلام حضرت حمزہ بن حبیب ؓکہتے ہیں کہ حضرت ابو ریحانہ ایک غزوہ سے واپس آئے۔ رات کو کھاناکھایا، پھر وضو کیا اور مصلیٰ پر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی اور ایک سورت پڑھنے لگے اور نماز میں ایسے مگن ہوئے کہ اسی میں فجر کی اذان ہوگئی۔ ان کی بیوی نے کہا: اے ابو ریحانہ! آپ غزوہ میں گئے تھے جس میں آپ خوب تھگ گئے تھے، پھر آپ واپس آئے تو کیا آپ پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے؟ اور آپ کے اوقات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ہے، لیکن اللہ کی قسم! تم مجھے یاد آتیں تو تمہارا مجھ پر حق ہوتا۔ ان کی بیوی نے پوچھا: تو آپ کس چیز میں اتنے منہمک ہوگئے تھے (کہ میرا خیال بھی نہ آیا؟) فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کی لذتوں کو جو بیان فرمایا ہے میںانھیں سوچنے لگ گیا تھا بس اسی میں فجر کی اذان کان میں پڑی۔2 حضرت محمد بن واسع ؓکہتے ہیں کہ حضرت ابو ذر ؓ کی وفات کے بعد ایک آدمی بصرہ سے سفر کر کے حضرت اُمّ ذرؓ (حضرت ابو ذر کی اہلیہ) کے پاس حضرت ابوذرکی عبادت کے بارے میں پوچھنے گیا۔ چناںچہ اس آدمی نے حضرت اُمّ ذر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: میں آپ کی خدمت میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے حضرت ابو ذرکی عبادت کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سارا دن تنہائی میں بیٹھ کر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔1 حضرت عون بن عبد اللہ بن عتبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اُمّ درداء ؓ سے پوچھا کہ حضرت ابو درداء ؓ کا سب سے افضل عمل کون سا تھا؟ انھوں نے کہا: غورو فکر کرنا اور عبرت حاصل کرنا۔2 ابو نعیم نے حضرت عون ؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت اُمّ درداء ؓ سے پوچھا گیا کہ حضرت ابو درداءؓ سب سے زیادہ کون سا عمل کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: عبرت حاصل کرنا۔ دوسری روایت میں ہے: غور وفکرکرنا۔3 حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں کہ ایک گھڑی کا غور وفکر کرنا ساری رات عبادت کرنے سے بہتر ہے۔4 حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ خیر کے دروازوں کے کھلنے کا اور شر کے دروازوں کے بند ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں اور اس پر انھیں بہت زیادہ ثواب ملے گا۔ بہت سے لوگ شر کے دروازوں کے کھلنے کا اور خیر کے دروازوں کے بند ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں اور انھیں ان کی وجہ سے بڑا گناہ ہوگا۔ اور ایک گھڑی کا غور وفکر کرنا ساری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔5 حضرت حبیب بن عبد اللہ ؓکہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابو الدرداء ؓ کی خدمت میں آیا۔ وہ غزوہ میں جانا چاہتا تھا۔ اس نے عرض کیا: اے ابو الدرداء! مجھے کچھ وصیت فرما دیں۔ حضرت ابو الدرداء نے فرمایا: تم اللہ کو خوشی اور راحت میں یاد