حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ایسے ہی کروں گا۔ چناںچہ حضرت ابو طلحہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت محمد بن منکدر ؓ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}تو حضرت زید بن حارثہ ؓ اپنی ایک گھوڑی لے کر حضورِ اَقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کا نام شِبْلہ تھا۔ اور انھیں اپنے مال میں سے کوئی چیز اس گھوڑی سے زیادہ محبوب نہیں تھی۔ اور عرض کیا کہ یہ گھوڑی اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ حضور ﷺ نے اسے قبول فرماکر ان کے بیٹے حضرت اُسامہ بن زید ؓ کو سواری کے لیے دے دی۔ (حضرت زید بن حارثہ کو یہ اچھا نہ لگا کہ ان کی صدقہ کی ہوئی گھوڑی ان کے ہی بیٹے کو مل گئی، یوں صدقہ کی ہوئی چیز اپنے ہی گھر واپس آگئی) حضور ﷺ نے اس ناگواری کا اثر اُن کے چہرے میں محسوس فرمایا تو ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے اس صدقہ کو قبول کرچکے ہیں (لہٰذا اب یہ گھوڑی جسے بھی مل جائے تمہارے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی)۔ 1 حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں: ہر مال میں تین شریک ہوتے ہیں: ایک تو تقدیر ہے جو مال کے ہلاک ہونے اور جانوروں کے مرجانے کی صورت میں تیر امال لے جاتی ہے اور تجھ سے پوچھتی بھی نہیں ہے کہ وہ تیرا عمدہ مال لے جائے یا گھٹیا۔ دوسرا شریک وارث ہے جو اس کا انتظار کر رہا ہے کہ تو (قبر میں) سر رکھے، یعنی تو مرجائے اور وہ تیرا مال لے جائے۔ وہ تیرا مال بھی لے جائے گااور تو اس کی نگاہ میں برا بھی ہو گا۔ اور تیسرا شریک تو خود ہے۔ لہٰذا تم اس بات کی پوری کوشش کرو کہ تم ان تینوں شریکوں میں سے سب سے کمزور شریک نہ بنو (یعنی تم ان دونوں سے زیادہ مال اللہ کے راستہ میں خرچ کرلو)۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} غور سے سنو! یہ اُونٹ مجھے اپنے مال میں سے بہت اچھا لگتا ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ میں اسے اپنے (کام آنے کے) لیے آگے (آخرت میں) بھیج دوں۔2اپنی ضرورت کے باوجود مال دوسروں پر خرچ کرنا حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں: ایک عورت حضورِ اَقدس ﷺ کی خدمت میں ایک چادر لے کر آئی جو کہ بُنی ہوئی تھی اور اس کا کنارہ بھی اسی کے ساتھ بُنا ہوا تھا۔ (یعنی وہ چادر کسی اور کپڑے سے کاٹ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ کنارے سمیت بطورِ چادر کے ہی وہ بُنی گئی تھی) اور اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہ چادر اس لیے لائی ہوں تاکہ آپ اسے پہن لیں۔ آپ نے اس عورت سے چادر لے لی اور چوںکہ آپ کو اس چادر کی واقعی ضرورت تھی اس لیے آپ نے اسے پہن لیا۔ آپ کے صحابہ میں سے ایک صاحب نے حضور ﷺ پر وہ چادر دیکھی تو عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو