حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو بکر سے یہ مال اس وجہ سے دور نہیں رکھا کہ ان دونوں کے ساتھ شر کا ارادہ تھا اور مجھے اس وجہ سے نہیں دے رہے ہیں کہ میرے ساتھ خیر کا ارادہ ہے (بلکہ معاملہ بر عکس معلوم ہوتا ہے)۔1 حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے بلانے کے لیے میرے پاس ایک آدمی بھیجا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو میں نے اندر سے ان کے زور سے رونے کی آواز سنی۔ میں نے گھبرا کر کہا: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ کی قسم! امیر المومنین کو کوئی زبردست حادثہ پیش آیا ہے (جس کی وجہ سے اتنے زور سے رو رہے ہیں)۔ میں نے اندر جا کر ان کا کندھا پکڑ کر کہا: اے امیر المؤمنین! پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ انھوں نے کہا: نہیں۔ پریشان ہونے کی بہت بڑی بات ہے۔ اور میر اہاتھ پکڑ کر دروازے کے اندر لے گئے۔ میں نے وہاں جا کر دیکھا کہ اوپر نیچے بہت سے تھیلے رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: اب خطّاب کی اولاد کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں رہی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو میرے دونوں ساتھیوں یعنی نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓکو بھی یہ مال دیتے، اور وہ دونوں اسے خرچ کرنے میں جو طریقہ اختیار کرتے میں بھی اسے اختیار کرتا۔ میں نے کہا: آئیں! بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ اسے کیسے خرچ کرنا ہے۔ چناںچہ ہم لوگوں نے اُمہات المؤمنین (حضورﷺ کی ازواجِ مطہّرات) کے لیے چار چار ہزار اور مہاجرین کے لیے چار چار ہزار اور باقی لوگوں کے لیے دو دو ہزار درہم تجویز کیے، اور یوں وہ سارا مال تقسیم کر دیا۔2حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا دنیا کی وسعت سے ڈرنا اور رونا حضرت ابراہیم ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ (روزہ کھولنے کے لیے) ان کے پاس کھانا لایا گیا تو اسے دیکھ کر فرمایا: حضرت مصعب بن عمیرؓ مجھ سے بہتر تھے۔ انھیں شہید کیا گیا، اور پھر انھیں ایسی چادر میں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر اُن کا سر ڈھک دیا جاتا تو ان کے پیر کھل جاتے اور اگر پیر ڈھکے جاتے تو ان کا سر کھل جاتا۔ اور حضرت حمزہ ؓ مجھ سے بہتر تھے، ان کو بھی شہید کیا گیا۔ پھر دنیا کی ہم پر بہت وسعت ہوگئی اور ہمیں اللہ کی طرف سے دنیا بہت زیادہ دی گئی۔ اب ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمیں ہماری نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی تو نہیں دے دیا گیا۔ پھر رونا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ کھانا نہ کھا سکے۔1 حضرت نوفل بن اِیاس ہُذَلی ؓ کہتے ہیں: حضرت عبد الرحمن ؓ ہمارے ہم مجلس تھے اور بڑے اچھے ہم مجلس تھے۔ ایک دن ہمیں اپنے گھر لے گئے، ہم ان کے گھر میں داخل ہوگئے۔ پھر وہ اندر گئے اور غسل کر کے باہر آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر اندر سے ایک پیالہ آیا جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ جب وہ پیالہ سامنے رکھا گیا تو حضرت عبد الرحمن بن