حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عام مصائب پر صبر کرنا حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مکہ مکرّمہ میں تھے۔ آپ کے پاس ایک انصاری عورت آئی اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ خبیث (شیطان) مجھ پر غالب آگیا ہے۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا: تم کو جو تکلیف ہے اگر تم اس پر صبر کرو تو قیامت کے دن تم اس حال میں آؤ گی کہ نہ تم پر کوئی گناہ ہوگا اور نہ تم سے حساب لیا جائے گا۔ اس عورت نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں مرتے دم تک (اِن شاء اللہ) صبر کروں گی، البتہ مجھے یہ ڈر رہتا ہے کہ اس حالت میں شیطان مجھے ننگا کر دے گا۔ آپ نے اس کے لیے اس بارے میں دعا فرمائی۔ چناںچہ جب اسے محسوس ہوتا کہ شیطانی اثرات شروع ہونے والے ہیں تو وہ آکر کعبہ کے پردوں سے چمٹ جاتی اور شیطان سے کہتی: دور ہوجا، تو وہ شیطان چلا جاتا۔3 حضرت عطاء ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: کیا تمھیں میں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور دکھائیں۔ انھوں نے فرمایا: یہ کالی عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس نے کہا: مجھے مِرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ سے دعا فرما دیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمھیں جنت ملے، اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے دعاکر دوں کہ وہ تمھیں عافیت عطا فرمائے۔ اس عورت نے کہا: نہیں نہیں، میں تو صبر کروں گی، بس اللہ سے یہ دعا فرما دیں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے۔1 یہ قصہ ’’بخاری‘‘ اور ’’مسلم‘‘ میں بھی ہے۔’’بخاری‘‘ میں یہ بھی ہے کہ حضرت عطاء نے ان اُمّ زفر ؓ کو دیکھا کہ رنگ ان کا کالا اور قد لمبا ہے اور کعبہ کے پردے پر ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی ہیں۔2 حضرت عبد اللہ بن مغفّلؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں ایک بدکار عورت تھی۔ (وہ مسلمان ہوگئی) تو ایک مرد اس کے پاس سے گزرا، یا وہ کسی مرد کے پاس سے گزری، تو اس مرد نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس عورت نے کہا: رک جاؤ، اللہ تعالیٰ نے شرک کو ختم کر دیا ہے اور اسلام کو لے آئے ہیں۔ چناںچہ اس آدمی نے اسے چھوڑ دیا اور واپس چلا گیا، لیکن مڑکر اسے دیکھنے لگا یہاں تک کہ اس کا چہرہ ایک دیوار سے ٹکرا گیا۔ اس آدمی نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر سارا واقعہ بیان کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم اللہ کے ایسے بندے ہو کہ جس کے ساتھ اللہ نے خیر کا ارادہ فرمایا ہے، کیوںکہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اسے اس گناہ کی سزا جلدی دے دیتے ہیں یعنی دنیا میں دے دیتے ہیں، اور جب کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کی سزا روک لیتے ہیں (دنیا میں نہیں دیتے) بلکہ اس کی پوری سزا اسے قیامت کے دن دیں گے۔3