حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زیادہ) جن کو بجز محنت مزدوری کی آمدنی کے اور کچھ میسر نہیں ہوتا، یعنی ان سے تمسخر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس تمسخر کا (تو خاص) بدلہ دے گا اور (مطلق طعن کا یہ بدلہ ملے ہی گا) کہ ان کے لیے آخرت میں درد ناک سزا ہوگی۔3 حضرت ابو سلمہ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: حضور ﷺ نے اعلان فرمایا: صدقہ کرو کیوںکہ میں ایک جماعت بھیجنا چاہتا ہوں۔ اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس چار ہزار درہم ہیں ان میں سے دو ہزار تو میں اپنے ربّ کو اُدھار دے رہا ہوں۔ (اللہ کو اُدھار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب میں یہ مال ضرورت مندوں پر خرچ کردیتا ہوں اور آخرت میں اس کا بدلہ لوں گا) اور دو ہزار میں اپنے اہل وعیال کو دے رہا ہوں۔ حضور ﷺ نے (خوش ہو کر) ان کو دعا دی: اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت دے جو تم دے رہے ہو اور اس میں بھی برکت دے جو تم (گھر والوں کے لیے) رکھ رہے ہو۔ اور ایک اَنصاری نے رات بھر مزدوری کر کے دو صاع کھجوریں جمع کیں۔ انھوں نے خدمت میں آکر عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے (مزدوری کر کے) دو صاع کھجوریں جمع کی ہیں۔ ایک صاع میں اپنے ربّ کو دے رہا ہوں اور ایک صاع میں اپنے اہل وعیال کے لیے رکھ رہا ہوں۔ اس پر منافقوں نے (زیادہ دینے والے اور کم دینے والے) دونوں قسم کے حضرات میں عیب نکالنے شروع کر دیے اور کہنے لگے: عبد الرحمن بن عوف جیسے زیادہ خرچ کرنے والے تو صرف ریا اور دکھاوے کی وجہ سے اتنا خرچ کر رہے ہیں، اور یہ غریب اور ضرورت مند آدمی جو ایک صاع کھجور دے رہا ہے اللہ اور رسول ﷺ کو اس کے صاع کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے {اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ} والی آیت نازل فرمائی۔1حضرت عبد اللہ بن زید ؓ کے خرچ کرنے کا قصہ حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدِ ربّہٖؓ جنھوںنے خواب میں (فرشتے کو) اذا ن (دیتے ہوئے) دیکھاتھا، وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضورِ اَقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہ باغ صدقہ ہے۔ میں اللہ اور اس کے رسول کو دے رہا ہوں، وہ جہاں چاہیں خرچ کردیں۔ جب ان کے والدین کو معلوم ہوا تو انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا گزارا تو اسی باغ پر ہورہا تھا (ہمارے بیٹے نے اسے صدقہ کر دیا)۔ حضور ﷺ نے وہ باغ ان دونوں کو دے دیا۔ پھر جب ان دونوں کا انتقال ہوگیا تو وہ باغ ان کے بیٹے (حضرت عبد اللہ بن زید) کو وراثت میں مل گیا (اور وارث بن کر اس باغ کے مالک ہوگئے)۔1ایک اَنصاری کے خرچ کرنے کا قصہ حضر ت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: ایک آدمی نے حضورِ اَقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: مجھے بھوک نے