حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جو غزوات کے سفر کر چکے ہو وہ منزلِ مقصود یعنی جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے کافی ہیں۔ آج تو غزوہ میں جانے سے تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ (یہاں مدینہ ہی میںرہو) نہ تم دنیا کو دیکھو اور نہ دنیا تمہیں دیکھے۔ (حضرت عمر ؓ کا مقصد یہ تھا کہ یہ چند خاص حضرات اگرمختلف علاقوں میں چلے جائیں گے تو وہاںکے مسلمان ان کی ہی صحبت پر اکتفاکرلیں گے اور مدینہ نہیں آیا کریں گے، اور یوں ان کا امیر المؤمنین سے اور مرکزِ اسلام سے تعلق کمزور ہوجائے گا۔ اگر یہ حضرات مدینہ ہی میں رہیں گے توساری دنیا کے مسلمان مدینہ آیا کریں گے، اور اس طرح ان کا امیر المؤمنین اور مرکز ِاسلام سے تعلق مضبوط ہو تا رہے گا، اور یوں مسلمانوں میں فکر اور محنت اور ساری ترتیب میں یکسانیت رہے گی) جب حضرت عثمان ؓ خلیفہ بنے تو انھوں نے ان حضرات سے یہ پابندی اٹھالی اور انھیں جانے کی اجازت دے دی۔ یہ حضرات مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور وہاں کے مسلمانوں نے ان حضرات کی صحبت پر ہی اِکتفاکرلیا۔ اس حدیث کے راوی حضرت محمد اور حضرت طلحہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلی کمزوری تھی جو اِسلام میں داخل ہوئی اور یہی سب سے پہلا فتنہ تھا جو عوام میں پیدا ہوا (کہ مقامی حضرات سے تعلق زیادہ ہوگیا، اور امیر المؤمنین اور مرکز ِاسلام سے تعلق کم ہوگیا)۔1 حضرت قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ حضرت زُبیر ؓ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لیے آئے۔ حضرت عمر نے فرمایا: تم اپنے گھر میں بیٹھے رہو، تم حضور ﷺ کے ساتھ بہت غزوے کرچکے ہو۔ حضرت زُبیر بار بار اِصرار کرنے لگے، تیسری یا چوتھی مرتبہ کے اِصرار پر حضرت عمر نے فرمایا: اپنے گھرمیںبیٹھ جائو،کیوںکہ اللہ کی قسم! میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اور تمہارے ساتھی نکل کر اطرافِ مدینہ میں چلے جائو گے تو تم لوگ حضرت محمدﷺ کے صحابہ کے خلاف فتنہ پیدا کر دوگے۔2حضراتِ اہل الرّائے سے مشورہ کرنا حضور ﷺ کا اپنے صحابہ ؓ سے مشورہ کرنا حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کو ابو سفیان (کے لشکر) کے آنے کی خبر ملی تو حضور ﷺ نے اپنے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے کچھ بات فرمائی، حضور ﷺ نے ان سے اعراض فرمالیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کچھ بات فرمائی، حضور ﷺ نے ان سے بھی اعراض فرمالیا۔ آگے حدیث کا اور مضمون بھی ہے جو کہ جہاد کے باب کے شروع میں حصہ اول صفحہ ۵۱۲ پرگزر چکاہے۔1