حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک بچھونا ہدیہ میں بھیجا۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ ایک ہاتھ لمبا اور ایک بالشت چوڑا ہوگا۔ حضرت عمر اُن کے پاس آئے اور وہ بچھونا دیکھا تو پوچھا: یہ تمھیں کہاں سے ملا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ مجھے حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ہدیہ کیا ہے۔ حضرت عمر نے اسے اٹھا یا اور اس زور سے ان کے سر پر مارا کہ ان کے سر کے بال کھل گئے اور پھر فرمایا کہ ابو موسیٰ کو فوراً جلدی سے میرے پاس لاؤ۔ (یعنی دوڑاتے ہوئے اتنی جلدی لاؤکہ وہ تھک جائیں) چناںچہ وہ بڑی تیزی سے چلتے ہوئے حضرت عمر کے پاس آئے اور آتے ہی انھوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ میرے بارے میں جلدی نہ کریں۔ حضر ت عمر نے فرمایا: تم میری عورتوں کو ہدیہ کیوں دیتے ہو؟ پھر وہ بچھونا اٹھا کر ان کے سر پر مارا اور فرمایا: اسے لے جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔2 حضرت لیث بن سعد ؓکہتے ہیں: (اِسْکَنْدریہ کے بادشاہ) مُقَوْقِس نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہاکہ وہ مُقَطَّم پہاڑ کا دامن ستّر ہزار دینا ر میں اسے بیچ دیں۔ اتنی زیادہ قیمت سن کر حضرت عمرو بہت حیران ہوئے اور مُقَوْقِس سے کہا: میں اس بارے میں امیر المؤمنین کو خط لکھ کر پوچھوں گا۔ چناںچہ حضرت عمر و نے حضرت عمر ؓ کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عمر نے جواب میں یہ لکھا کہ اس سے پوچھو وہ تمھیں اتنی زیادہ قیمت کیوں دے رہا ہے، حالاںکہ وہ زمین نہ کاشت کے قابل ہے اور نہ اس سے پانی نکالا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی اور کام آسکتی ہے؟ حضرت عمر و نے مُقَوْقِس سے پوچھا تو اس نے کہا: ہمیں اپنی آسمانی کتا بوں میں اس جگہ کی یہ فضیلت ملی ہے کہ اس میںجنت کے درخت ہیں۔ حضر ت عمرو نے یہ بات حضرت عمر کو لکھی۔ حضرت عمر نے انھیں جواب میں لکھا: ہم تو صرف یہی جانتے ہیںکہ جنت کے درخت صرف مؤمنوں کو ملیں گے۔ لہٰذا تم اس زمین میں اپنے ہاں کے مسلمانوں کو دفنا دیا کرو اور اسے قبر ستان بنالو اور کسی قیمت پر اسے مت بیچو۔1حضرت ابو عبیدہ بن جرّا ح ؓ کا مال واپس کرنا حضرت اسلم ؓ کہتے ہیں: رمادہ والے سال (۱۸ ہجری میں حجاز میں زبردست قحط پڑا تھا جو نو ماہ رہا تھا۔ اس سال کو عام الرّمادہ یعنی راکھ والا سال کہا جاتا ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے مٹی راکھ کی طرح ہوگئی تھی۔ رنگ بھی ایسا ہوگیا تھا اور راکھ کی طرح اُڑ تی تھی) عربوں کا سارا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ اس وقت حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا۔ آگے اور حدیث ہے جس میں یہ مضمون بھی ہے کہ پھر حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓ کو بلا یا اور قحط زدہ لوگوں میں غلہ وغیرہ تقسیم کرنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آئے تو حضرت عمر نے ان کے پاس ایک ہزار دینار بھیجے۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا: اے ابن الخطّاب! میں نے آپ کے لیے یہ کام نہیں کیا تھا،