حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جیسے وہ کہیں ویسے کرتے رہنا) یہاں تک کہ اسی حال میں آکر مجھ سے مل لینا۔1 ابنِ جریر نے اس جیسی حدیث خود حضرت ابو ذر ؓ سے نقل کی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں (مدینہ سے) دوبارہ نکالا جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تلوار لے کر نکالنے والوں کو ماروں گا۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارا اور فرمایا: اے ابو ذر! تم (ان نکالنے والوں کو) معاف کر دینا، اور وہ تمہیں آگے سے پکڑ کر جہاں لے جائیں وہاں چلے جانا اور پیچھے سے تمہیںجدھر کو چلائیں تم اُدھر کو چلے جانا (یعنی اُن کی بات مانتے رہنا) چاہے تم کو یہ معاملہ ایک کالے غلام کے ساتھ کیوں نہ کرنا پڑے۔ حضرت ابو ذر کہتے ہیں: جب (امیر المؤمنین حضرت عثمان ؓ کے فرمان پر) میں رَبْذہ رہنے لگا تو ایک دفعہ نماز کی اِقامت ہوئی اور ایک کالا آدمی جو وہاں کے صدقات وصول کرنے پر مقرر تھا، نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگا اور مجھے آگے کرنے لگا۔ میں نے کہا: تم اپنی جگہ رہو، میں حضور ﷺ کی بات مانوںگا۔2 عبد الرزاق نے حضرت طائوس ؓ سے یہی حدیث نقل کی ہے اور اس میں یہ مضمون ہے کہ جب حضرت ابو ذر ؓ رَبْذہ گئے تو اُن کو وہاں حضرت عثمان ؓ کا ایک کالا غلام ملا۔ اس نے اَذان دی اور اِقامت کہی پھر حضرت ابو ذر سے کہا: اے ابو ذر! (نماز پڑھانے کے لیے) آگے بڑھیں۔ حضرت ابو ذر ؓ نے کہا:نہیں، مجھے تو حضور ﷺ نے حکم دیا ہے کہ میں امیر کی بات سنوں اور مانوں چاہے وہ کالا غلام ہی کیوں نہ ہو۔ چناںچہ وہ غلام آگے بڑھا اور حضرت ابو ذر ؓ نے اس کے پیچھے نماز پڑھی۔3 ابنِ ابی شیبہ اور ابنِ جریر اور بیہقی اورنُعیم بن حماد وغیرہ حضرات حضرت عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: اپنے امیر کی بات سنو اور مانو چاہے تم پر کان کٹا حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر بنا دیا گیا ہو۔ اگر وہ تمہیں تکلیف پہنچائے تو اسے برداشت کرو، اور اگر وہ تمہیں کسی کام کا حکم دے تو اسے مانو، اور اگر وہ تمہیں کچھ نہ دے تو صبر کرو، اور اگر وہ تم پر ظلم کرے تو بھی صبر کرو، اور اگر وہ تمہارے دین میں سے کم کرنا چاہے تو اس سے کہہ دو جان حاضر ہے دین نہیں۔(میں جان دے سکتا ہوں لیکن دین میں کمی برداشت نہیں کرسکتا) چاہے کچھ بھی ہو جائے تم جماعت سے جدا نہ ہونا۔1 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں: حضرت علقمہ بن علاثہ رات کے وقت حضرت عمر ؓ سے ملے۔ حضرت عمر (شکل وصورت اور قد میں) حضرت خالد بن ولید ؓ کے مشابہ تھے۔ (حضرت علقمہ ان کو حضرت خالد سمجھے) اور ان سے کہا: اے خالد! تمہیں اس آدمی نے (یعنی حضرت عمر نے) معزول کر دیا۔ انھوں نے تنگ نظری کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ میں اور میرا چچا زاد بھائی ان سے کچھ مانگنے کے لیے ان کے پاس جانا چاہتے تھے، لیکن اب جب کہ انھوں نے آپ کو اَمارت سے ہٹا دیا ہے تو