حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیاکرتے۔ چناںچہ حضرت عمر نے ان حضرات کو آکر کہا: مجھے نکاح کی مبارک باد دو۔ ان حضرات نے حضرت عمر کو مبارک باد دی اور پوچھا: اے امیر المؤمنین! (آپ نے) کس سے (نکاح کیاہے؟) حضرت عمر نے فرمایا: حضرت علی بن ابی طالب کی بیٹی سے۔ پھر انھیں سارا واقعہ تفصیل سے بتانے لگے اور فرمایا: حضور ﷺ نے فرمایاہے کہ میرے تعلق اور رشتہ کے علاوہ ہر تعلق اور رشتہ قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا۔ حضور ﷺ کی صحبت تو مجھے حاصل ہے ہی، اب میں نے چاہا کہ (اس نکاح کے ذریعہ حضور ﷺ سے) میرا رشتہ کا تعلق بھی قائم ہو جائے۔1 حضرت عطاء بن یسار ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ حضرت ابنِ عباس ؓ کو بلایا کرتے تھے اور بدر والوں کے ساتھ ان سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ اور حضرت ابنِ عباس حضر ت عمر اور حضرت عثمان کے زمانے سے آخر دم تک فتویٰ کا کام انجام دیتے رہے۔ حضرت یعقوب بن زید ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کو جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش آتا تو وہ حضرت ابنِ عباس سے مشورہ لیتے اور فرماتے: اے غوطہ لگانے والے! (یعنی ہر معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے والے) غوطہ لگائو ( اور اس اہم مسئلہ میں اچھی طرح سوچ کر اپنی رائے پیش کرو)۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیںکہ میں نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جو حضرت ابنِ عباس سے زیادہ حاضر دماغ، زیادہ عقل مند، زیادہ علم والا اور زیادہ بُرد بار ہو۔ میں نے حضرت عمر ؓ کو دیکھا ہے کہ وہ حضرت ابنِ عباس ؓکو پیچیدہ اورمشکل مسائل کے پیش آنے پر بلاتے اور فرماتے: یہ ایک پیچیدہ مسئلہ تمہارے سامنے ہے۔ پھر ابنِ عباس ہی کے مشورے پر عمل کرتے حالاںکہ ان کے چاروں طرف بدری حضرات مہاجرین واَنصار کا مجمع ہوتا۔1 حضرت ابنِ شہاب ؓ کہتے ہیں کہ جب بھی حضرت عمر ؓ کو کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو آپ نوجوانوں کو بلاتے اور ان کی عقل وسمجھ کی تیزی کو اختیار کرتے ہوئے ان سے مشورہ لیتے۔2 امام بیہقی نے حضرت ابنِ سیرین سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا مزاج مشورہ کر کے چلنے کا تھا۔ چناںچہ بعض دفعہ مستورات سے بھی مشورہ لے لیا کرتے اور ان مستورات کی رائے میں ان کو کوئی بات اچھی نظر آتی تو اس پر عمل کرلیتے۔3 حضرت محمد، حضرت طلحہ اور حضرت زِیاد ؓ کہتے ہیں کہ (یکم محرم ۱۴ھ کو) حضرت عمر ؓ لشکر لے کر (مدینہ سے) نکلے اور ایک پانی پر پڑائو کیا جس کا نام صِرار تھا۔ (یہ پانی مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا) اور لشکر کو بھی وہاں ٹھہرالیا۔ لوگوں کو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ حضرت عمر آگے چلیں گے یا (مدینہ ہی) ٹھہریں گے۔ اور لوگ جب کوئی بات حضرت عمر سے پوچھنا چاہتے تو حضرت عثمان یا حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کے واسطے سے پوچھتے۔ اور حضرت عمر کے زمانے میں ہی حضرت