حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت زُہری ؓ کہتے ہیںکہ جب مسلمانوں پر (غزوۂ خندق کے موقع پر) مصیبت سخت ہو گئی تو حضور ﷺ نے قبیلۂ غَطَفان کے دو سرداروں عیینہ بن حصن اورحارث بن عوف مُرِّی کو بلا بھیجا۔ اور ان کو مدینہ کا تہائی پھل اس شرط پر دینے کا ارادہ فرمایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو آپ کے اور آپ کے صحابہ کے مقابلہ سے واپس لے جائیں۔ چناںچہ آپ کے اور ان کے درمیان صلح کی بات شروع ہوگئی حتیٰ کہ انھوں نے صلح نامہ بھی لکھ لیا، لیکن ابھی تک گواہیاں نہیں لکھی گئی تھیں اور صلح کا مکمل فیصلہ نہیں ہوا تھا صرف ایک دوسرے کو آمادہ کرنے کی باتیں چل رہی تھیں۔ جب آپ نے اس طرح صلح کرلینے کا پختہ فیصلہ فرما لیا تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ کو بلا کر اس صلح کا ان سے تذکرہ فرمایا اور ان دونوں سے اس بارے میں مشورہ کیا۔ تو ان دونوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ صلح کا کام آپ کو پسند ہے اس لیے آپ اس کو کر رہے ہیں، یا اللہ نے آ پ کو اس صلح کرنے کا حکم دیا ہے جس پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، یا یہ صلح ہمارے فائدے کے لیے کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میںیہ صلح تمہارے فائدے کے لیے کر رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں یہ صلح اس وجہ سے کرنا چاہتاہوں کیوںکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سارے عرب والے ایک کمان سے تم پر تیر چلا رہے ہیں، یعنی سارے تمہارے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور ہر طرف سے کھلم کھلا تمہاری دشمنی کر رہے ہیں، تو میں نے یہ سوچا کہ (یوں صلح کر کے) ان کی طاقت کو کچھ تو توڑ دوں۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اور یہ لوگ پہلے اللہ کے ساتھ شریک کرنے اور بتوں کی عبادت میں اکٹھے تھے۔ ہم اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ہم اللہ کو پہچانتے بھی نہیںتھے۔ تو اس زمانے میں ہماری ایک کھجور بھی زبردستی کھا لینے کا ان میں حوصلہ نہیں تھا۔ ہاں! ہمارے مہمان بن جاتے یا ہم سے خر ید لیتے تو پھر یہ ہماری کھجور کھا سکتے تھے۔ تو اب جب کہ اللہ نے ہمیں اسلام کا شرف عطا فرمایا اور ہمیں اسلام کی ہدایت دی اور آپ کے ذریعہ اسلام دے کر ہمیں عزّت عطا فرما دی تواب ہم خود اپنے پھل انھیں دے دیں؟ (یہ ہر گز نہیں ہو سکتا) اللہ کی قسم! ہمیںاس صلح کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! ہم ان کو تلوار کے علاوہ اور کچھ نہیں دیں گے یہاں تک کہ اللہ ہی ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: تم جانو اور تمہا را کام (تمہا ری رائے صلح کرنے کی نہیں ہے تو پھر ہم نہیں کرتے)۔ چناںچہ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے وہ صلح نامہ لیا اور اس میں جو کچھ لکھا ہواتھا وہ مٹا دیا اور کہاکہ وہ ہمارے خلاف اپنا سارا زور لگاکردیکھ لیں۔1 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حارث حضور ﷺ کی خدمت میں (غزوۂ خندق کے موقع پر) آ کر کہنے لگا: ہمیں مدینہ کی آدھی کھجوریں دے دو ورنہ میں آپ کے خلاف مدینہ کو سوار اور پیدل لشکر سے بھر دوں گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: