حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمل کریں گے اوربعض نے کہا: آپ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی رائے پر عمل کریں گے۔ پھر آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے دلوں کو اپنے بارے میں اتنا نرم فرما دیتے ہیں وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو اپنے بارے میں اتنا سخت فرما دیتے ہیں وہ پتھرسے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔ اور اے ابو بکر! تمہاری مثال حضرت ابراہیم ؑ جیسی ہے کیوںکہ انھوںنے فرمایاتھا: {فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ج وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o}1 پھر جو شخص میری راہ پر چلے گا وہ تو میرا ہی ہے۔اور جو شخص (اس باب میں) میرا کہنا نہ مانے سو آپ تو کثیر المغفرت کثیر الرحمت ہیں۔ اور اے ابو بکر! تمہا ری مثال حضرت عیسیٰ ؑ جیسی ہے کیوںکہ انھوں نے فرمایا: {اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o}2 اور اگر آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو آپ زبر دست حکمت والے ہیں۔ اوراے عمر! تمہاری مثال حضرت نوح ؑ جیسی ہے کیوںکہ انھوں نے فرمایا تھا: {رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِیْنَ دَیَّارًا o}1 اے ربّ!نہ چھوڑیو زمین پر منکروں کا ایک گھر بسنے والا۔ اور اے عمر! تمہاری مثال حضرت موسیٰ ؑ جیسی ہے کیوںکہ انھوں نے فرمایاتھا: {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰی اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ o}2 اے ہمارے ربّ! ان کے مالوں کو نیست و نا بود کر دیجیے اور ان کے دلوں کو زیادہ سخت کر دیجیے (جس سے ہلا کت کے مستحق ہو جائیں) سویہ ایمان نہ لانے پاویں یہاں تک کہ عذابِ اَلیم (کے مستحق ہوکر) اس کو دیکھ لیں۔ (پھر حضور ﷺ نے فرمایا:) چوںکہ تم ضرورت مند ہو اس وجہ سے ان قیدیوں میں سے ہر قیدی یا تو فدیہ دے گا یا پھر اس کی گردن اُڑا دی جائے گی۔ حضرت عبد اللہ (بن مسعود ؓ) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس حکم سے سہیل بن بیضا کو مستثنیٰ قرار دیا جائے، کیوںکہ میں نے ان کو اسلام کا بھلائی کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔ (یہ سن کر) حضور ﷺ خاموش رہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیںکہ اس دن جتنا مجھے اپنے اوپر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا ڈر لگا اتنا مجھے کبھی نہیں لگا۔ (ڈر اس وجہ سے تھا کہ کہیں حضور ﷺ سے نامناسب بات کی فرمایش نہ کردی ہو) آخر حضور ﷺ نے فرما ہی دیا کہ سہیل بن بیضا کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی}سے لے کر دو آیتیںنازل فرمائیں۔3