حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت عمر کی طرف سے چہرہ پھیر لیا۔ حضور ﷺ نے دوبارہ متوجہ ہو کر فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں پر قابو دے دیاہے اور یہ لوگ کل تمہارے بھائی ہی تھے (لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کا برتائو ہونا چاہیے)۔ حضرت عمر نے دوبارہ وہی رائے پیش کی، حضور ﷺ نے ان کی طرف سے چہرہ پھیر لیا۔ حضور ﷺ نے پھر متوجہ ہو کر وہی بات ارشاد فرمائی۔ اس مرتبہ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو معاف کر دیں اور ان سے فدیہ قبول فرما لیں۔ (یہ سن کر) حضور ﷺ کے چہرۂ مبارک سے غم اور پریشانی کا اثر دور ہو گیا۔ پھر آپ نے ان کو معاف فرما دیا اور ان سے فدیہ لینا قبول فرمالیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ}1 اگر خدا تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہو چکتا تو جو امر تم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔2 (حضور ﷺ کا فدیہ لینے کی رائے کی طرف رجحان صرف صلہ رحمی اور رحم دلی کی وجہ سے تھا۔ البتہ بعض صحابہ ؓ نے صرف مالی فوائد کو سامنے رکھ کر یہ رائے دی تھی، اور اکثر صحابہ ؓ نے دوسری دینی مصلحتوں اور اخلاقی پہلو کے ساتھ مالی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے یہ رائے دی تھی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دینا اس وقت کے حالات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں غلطی قرار دیا گیا، اور یہ غلطی تھی تو ایسی کہ ان لوگوں کو سخت سزادی جاتی جنھوں نے دنیوی سامان کا خیال کر کے ایسا مشورہ دیا تھا، مگر سزا دینے سے وہ چیز مانع ہے جو اللہ پہلے سے لکھ چکا اور طے کرچکا ہے۔ اوروہ کئی باتیں ہو سکتی ہیں: ! مجتہد کو اس قسم کی اجتہادی خطا پر عذاب نہیں ہوگا۔ @ اہلِ بدر کی خطائوں کو اللہ معاف فرما چکا ہے۔ # ان قیدیوں میں سے بہت سوں کی قسمت میں اسلام لا نا لکھا گیا تھا وغیرہ۔) حضرت ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جنگِ بدر کے دن حضورِ اَقدس ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ لوگ آپ کی قوم اور آپ کے خاندان کے ہیں، ان کو (معاف فرما کر دنیا میں) باقی رکھیں اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں، شاید اللہ تعالیٰ ان کو (کفر وشرک سے) توبہ کی توفیق دے دے۔ اور پھر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انھوں نے آپ کو (مکہ سے) نکالا اور آپ کو جھٹلا یا۔ آپ ان کو اپنے پاس بلائیں اور ان سب کی گردنیں اُڑا دیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے یہ رائے پیش کی کہ یا رسول اللہ! آپ گھنے درختوں والا جنگل تلاش کریں، پھر ان لوگوں کو اس جنگل میں داخل کر کے اوپر سے آگ جلا دیں۔ حضور ﷺ نے (سب کی رائے سنی اور) کوئی فیصلہ نہ فرمایا اور (اپنے خیمہ) میں تشریف لے گئے۔ (لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے) بعض نے کہا: آپ حضرت ابو بکر کی رائے پر عمل کریں گے اور بعض نے کہا: آپ حضرت عمر کی رائے پر