حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضور ﷺ سے میری شکایت کر دی۔ حضورﷺ نے آدمی بھیج کر مجھے بلایا،میں حضو ر ﷺ کی خدمت میں گیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا تم دن بھر روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا تم رات بھر عبادت کرتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضورﷺ نے فرمایا: لیکن میںتو کبھی روزہ رکھتا ہوں، اورکبھی افطار کرتا ہوں اور رات کو کبھی نماز پڑھتا ہوں اور کبھی سوتا ہوں، اور بیویوں کے پاس بھی جاتا ہوں۔ ( یہ میری سنت ہے) اور جو میری سنت سے اِعراض کرے وہ مجھ سے نہیں (اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: مہینہ میں ایک قرآن ختم کر لیا کرو، میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: دس دن میں ایک ختم کر لیا کرو۔ میں نے کہا: مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: اچھا تین دن میں ختم کر لیا کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: ہر مہینے تین دن روزہ رکھا کرو۔ میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ دن بڑھاتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن افطار کیا کرو، کیوںکہ یہ بہترین روزے ہیں، اور یہ میرے بھائی داؤد ؑ کے روزے ہیں۔ حضرت حصین کی حدیث میں یہ ہے کہ پھر حضورﷺ نے فرمایا: عبادت کے ہر شوقین پر کچھ عرصہ ایسا آتا ہے جس میں اسے عبادت کا بہت جوش وجذبہ ہوتا ہے اور جوش وجذبہ کچھ عرصہ چلتا ہے پھر اس میں کمی آجاتی ہے۔ جب کمی آتی ہے تو کوئی اس وقت سنت طریقہ اختیار کر تا ہے اور کوئی بدعت طریقہ کو۔ جس نے جوش وجذبہ کی کمی کے زمانے میں سنت طریقہ کو اختیار کیا وہ ہدایت پا گیا، اور جو کسی اور طرف چلا گیا وہ تباہ وبرباد ہو گیا۔ حضرت مجاہد ؓکہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمروؓ جب بوڑھے اور کمزور ہوگئے تو وہ کئی دن مسلسل روزے رکھتے، پھر اس کے بعد کچھ دن نہ رکھتے تاکہ کچھ طاقت آجائے۔ اور اسی طرح وہ قرآن کی منزل پڑھا کرتے کبھی زیادہ پڑھتے اور کبھی کم، لیکن تین یا سات دن میں مقدار پوری کر لیا کرتے۔ پھر اس کے بعد کمزوری بڑھ جانے کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ میں اگر حضورﷺ کی رخصت قبول کر لیتا تو یہ مجھے اس کثرتِ عبادت سے زیادہ محبوب ہوتا جسے میں نے اختیار کیا ہے، لیکن میں ایک طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے حضورﷺ سے جدا ہوا ہوں اب مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اسے چھوڑ کر اور کوئی طریقہ اختیار کروں (یعنی حضورﷺ کی زندگی میں آپ کے انتقال تک جو معمولات میں نے روزانہ تلاوت کے بنالیے تھے اب میں ان میں کمی کرنا اچھا نہیں سمجھتا، چاہے مجھے کتنی مشقت اختیار کرنی پڑے میں کروںگا)۔1 حضرت ابو جحیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؓ نے حضرت سلمانؓ اور حضرت ابودرداءؓ کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ ایک دن حضرت سلمان حضرت ابو درداء کو ملنے آئے تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت اُمّ درداءؓ نے پرانے سادہ سے کپڑے پہن رکھے