حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھتا ہوں۔ اور آج تمہارا مسئلہ میری طرف منتقل ہو گیا ہے (کیوںکہ میں خلیفہ بنا دیا گیا ہوں)۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں گے کہ جب خلیفہ دوسرے تھے (عمر نہیں تھے) تو یہ ہم پر سختی کیا کرتے تھے، اب جب کہ یہ خود خلیفہ بن گئے ہیں تو اب ان کی سختی کا کیا حال ہو گا۔ تم پر واضح ہوجانا چاہیے کہ تمہیں میرے بارے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم مجھے پہچانتے بھی ہو اور تم لوگ میرا تجر بہ بھی کر چکے ہو۔ اور اپنے نبی ﷺ کی سنت جتنی میں جانتا ہوں اتنی تم بھی جانتے ہو۔ اور حضور ﷺ سے میں نے ہر بات پوچھ رکھی ہے، اب مجھے (ضرورت کی) کسی بات کے نہ پوچھنے پر ندا مت نہیں ہے۔ تم اچھی طرح سے سمجھ لو کہ اب جب کہ میں خلیفہ بن گیا ہوں تو اب میری سختی جو تم دیکھتے تھے وہ کئی گنا بڑھ گئی ہے، لیکن یہ سختی اس انسان کے خلاف ہوگی جو ظلم اور زیادتی کرے گا۔ اور یہ سختی طاقت ور مسلمان سے حق لے کر کمزور مسلمان کو دینے کے لیے ہوگی۔ اور میں اپنی اس سختی کے باوجود اپنا رُخسار تمہارے ان لوگوں کے لیے بچھا دوں گا جو پاک دامن ہوں گے اور غلط کاموں سے رکیں گے اور بات مانیں گے۔ اور مجھے اس بات سے بھی اِنکار نہیں ہے کہ اگر میرے اورتم میں سے کسی کے درمیان کسی فیصلہ کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو تم جسے پسند کرو میں اس کے ساتھ اس کے پاس چلا جائوں گا، اور وہ (ثالث) میرے اور اس کے درمیان جو فیصلہ کرے گا وہ مجھے منظور ہوگا۔ اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اپنے بارے میں اس طرح میری مدد کرو کہ میرے پاس ( اِدھر اُدھر کی ساری ) باتیں نہ لائو۔ اور میرے نفس کے خلاف میری اس طرح مدد کرو کہ (جب ضرورت پیش آئے تو) مجھے نیکی کا حکم کرو اور مجھے برائی سے روکو، اور تمہارے جن اُمور کا اللہ نے مجھے والی بنا دیاہے ان میں تم میرے ساتھ پوری خیر خواہی کرو۔ پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔1 حضرت محمد بن زید ؓ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زُبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد ؓ جمع ہوئے۔ اور ان میں حضرت عمر ؓ کے سامنے (بات کرنے میں) سب سے زیادہ جَری حضرت عبد الرحمن بن عوف تھے۔ چناںچہ ان حضرات نے (ان سے) کہا: اے عبد الرحمن! کیا ہی اچھا ہو کہ آپ لوگوں کے بارے میں امیر المؤمنین سے بات کرلیں اور ان سے یہ کہیںکہ بہت سے حاجت مند لوگ آتے ہیں، لیکن آپ کی ہیبت کی وجہ سے آپ سے بات نہیں کر پاتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کیے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ چناںچہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے حضرت عمر کی خدمت میںحاضر ہو کر عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار فرمائیں، کیوںکہ بہت سے ضرورت مند آپ کے پاس آتے ہیں لیکن آپ کے رعب اور ہیبت کی وجہ سے آپ سے بات نہیں کر