حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا فیصلہ کرسکے۔2 حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: اس امرِ خلافت کا ذمہ دار اس شخص کو ہی بننا چاہیے جس میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہوں: نرمی ہو لیکن کمزوری نہ ہو، مضبوطی ہو لیکن درشتی نہ ہو، احتیاط سے خرچ کرتا ہو لیکن کنجوسی نہ ہو اورسخاوت ہولیکن فضول خرچی نہ ہو۔ اگر اس میں ان میں اسے ایک خوبی بھی نہ ہوئی تو باقی تینوں خوبیاں بے کارہو جائیںگی۔1 حضرت عمر ؓ فر ما تے ہیں: اللہ کے اس کام کو ٹھیک طرح سے وہی کر سکتا ہے جو بد لہ لینے کے لیے دوسروں سے حسنِ سلوک نہ کرے، اور ریاکاروںکی مشابہت اختیارنہ کرے، اورلالچ میںنہ پڑے۔ اس میںاپنی عزّت بنانے کا جذبہ نہ ہو، اور تیزی اور غصہ کے باوجود حق کو نہ چھپائے۔2 حضرت سفیان بن ابی العَوْجاء ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا: خدا کی قسم! مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ ہوں؟ اگر میں بادشاہ ہوں تو یہ بڑے (خطرے کی) بات ہے۔ (حاضرین میں سے) ایک نے کہا: ان دونوں میں تو بڑا فرق ہے۔ خلیفہ تو ہر چیزحق کی وجہ سے لیتا ہے اور پھر اسے حق میں ہی خرچ کر تاہے، اور اللہ کے فضل سے آپ ایسے ہی ہیں۔ اور بادشاہ لوگوں پر ظلم کرتاہے، ایک سے زبردستی لیتا ہے اور دوسرے کو ناحق دیتا ہے۔ (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ خاموش ہو گئے۔3 حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اُن سے پوچھا کہ میں بادشاہ ہوںیا خلیفہ؟ حضرت سلمان نے ان سے کہا: اگر آپ نے مسلمانوں کی زمین سے ایک درہم یا اس سے کم وبیش (ظلماً) لیا ہے اور پھر اسے نا حق خرچ کیاہے توآپ بادشاہ ہیں خلیفہ نہیں ہیں۔ اس پر حضرت عمر رو پڑے۔4 قبیلۂ بنو اَسد کے ایک آدمی کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر ؓ کی مجلس میں موجو د تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا جن میں حضرت طلحہ، حضرت سلمان، حضرت زُبیر اور حضرت کعب ؓ بھی تھے۔ فرمایا کہ میں تم سے ایک چیز کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں، تم مجھے غلط جواب نہ دینا ورنہ مجھے اور اپنے آپ کو ہلاک کردو گے۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ؟ حضرت طلحہ اورحضرت زُبیرنے فرمایا: آپ ہم سے ایسی بات پوچھ رہے ہیں جسے ہم جانتے نہیں ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے؟ حضرت سلمان نے کہا: میں پورے انشراحِ صدر کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ آپ خلیفہ ہیں اور بادشاہ نہیں ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: اگر تم یہ بات کہہ رہے ہو تو تمہیں ایسے فیصلہ کن انداز میں یہ بات کہنے کا حق ہے، کیوںکہ تم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اُن کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے۔ پھر حضرت سلمان نے کہا: میں نے یہ بات اس وجہ سے کہی ہے کہ آپ رعایا میں انصاف کرتے ہیں اور