حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمرو بن تغلب ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کو نہ دیا، تو جن کو نہ دیا وہ حضورﷺ سے کچھ ناراض ہوگئے۔ تو حضورﷺ نے فرمایا: میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ اگر نہ دوں گا تو مجھے ڈر ہے کہ بے صبری کریں گے اور گھبرانے لگ جائیں گے، اور جن لوگوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور استغنا کے جذبات رکھے ہیں ان کو اسی خیر اور استغنا کے حوالے کر دیتا ہوں، اور عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے۔ حضرت عمرو کہتے ہیں: مجھے یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ حضورﷺ کے اس فرمان کے بدلے مجھے سرخ اُونٹ مل جائیں۔2 حضرت عمرو بن حماد ؓکہتے ہیں کہ ایک صاحب نے ہمیں یہ قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت علی اور حضرت عمر ؓ طواف کر کے باہر آئے تو ان لوگوں نے دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنی والدہ کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور یہ اشعار پڑھ رہا ہے: أَنَا مَطِیَّتُھَا لَا أَنْفُرْ وَإِذَا الرِّکَابُ ذَعِرَتْ لَا أَذْعَرْ وَمَا حَمَلَتْنِي وَأَرْضَعَتْنِيْ أَکْثَرْ میں اپنی ماں کی ایسی سواری ہوں جو بدکتی نہیں، اور جب سواریاں ڈرنے لگتی ہیں تو میں نہیں ڈرتا۔ اور میری ماں نے جو پیٹ میں مجھے اٹھایا اور جو مجھے دودھ پلایا وہ میری اس خدمت سے کہیں زیادہ ہے۔ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حضرت علی نے فرمایا: اے ابو حفص! آؤ ہم بھی طواف کریں، کیوںکہ (اس دیہاتی کی اس اعلیٰ کیفیت کی وجہ سے) رحمت نازل ہو رہی ہے تو وہ ہمیں بھی مل جائے گی۔ پھر وہ دیہاتی مطاف میںداخل ہو کر طواف کرنے لگا اور یہ اشعارپڑھ رہا تھا: أَنَا مَطِیَّتُھَا لَا أَنْفُرْْ وَإِذَا الرِّکَابُ ذَعِرَتْ لَا أَذْعَرْ وَمَا حَمَلَتْنِي وَأَرْضَعَتْنِيْ أَکْثَرْ اور کہہ رہا تھا: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ۔ حضرت علی ؓ یہ شعر پڑھنے لگے: إِنْ تَبَرَّھَا فَاللّٰہُ أَشْکَرْ یَجْزِیْکَ بِالْقَلِیْلِ الْأَکْثَرْ اگر تم اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کررہے ہو تواللہ تعالیٰ بھی بہت زیادہ قدر دان ہیں وہ تمھیں اس تھوڑی خدمت کے بدلے میں بہت زیادہ دیں گے۔1