حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
میں تمھیں ضرور دوں گا اور اللہ کے ہاں آپ کو بڑا خاص مقام حاصل ہے، تو میں نے اس معاملہ میں غور کیا تو مجھے نظر آیا کہ دنیا ختم ہونے والی اور چلی جانے والی چیز ہے اور بقدرِ ضرورت مجھے رزق مل ہی رہا ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے میں اپنی آخرت کے لیے ہی مانگوں۔ یہ سن کر حضورﷺ کافی دیر خاموش رہے پھر فرمایا: میں تمہاری سفارش ضرور کروں گا، لیکن تم اس بارے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو گے۔1 مسلم کی روایت میں اس طرح سے ہے کہ حضرت ربیعہؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پاس رات گزارتا تھا اور وضو کا پانی اور ضرورت کی چیز آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھ سے فرمایا: مجھ سے مانگو۔ میں نے عرض کیا: میںجنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہی یا کچھ اور مانگنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: بس یہی۔ آپ نے فرمایا: اچھا تو تم اس بارے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔2 حضرت عبد الجبار بن حارث بن مالک حدسی مَنَادی ؓ فرماتے ہیں: میں سَرَاۃ کے علاقہ سے وفد لے کر حضورﷺ کی خدمت میں آیا۔ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے عربوں کے طریقہ سے یوں سلام کیا کہ آپ کی صبح اچھی ہو۔ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد(ﷺ) کو اور ان کی اُمت کو اس کے علاوہ اور سلام دیا ہے جو وہ ایک دوسرے کو کرتے ہیں۔ میں نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حضورﷺ نے فرمایا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ۔ پھر آپ نے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا: جبار بن حارث۔ حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں، آج سے تم عبد الجبار بن حارث ہو۔ میں نے کہا: بہت اچھا، آج سے میرا نام عبد الجبار بن حارث ہے۔ چناںچہ میں اسلام میں داخل ہوگیا اور حضورﷺ سے بیعت ہوگیا۔ جب میں بیعت ہوگیا تو لوگوں نے حضورﷺکو بتایا کہ یہ مَنَادی تو اپنی قوم کا بہترین شہ سوار ہے۔ چناںچہ حضورﷺ نے مجھے ایک گھوڑا سواری کے لیے عنایت فرمایا۔ پھر میں حضور ﷺ کے ہاں ٹھہر گیا اور آپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہو کر کافروں سے خوب لڑتا رہا۔ ایک مرتبہ حضورﷺ کو میرے اس گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز نہ آئی تو فرمایا: کیا بات ہے حَدَسی کے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز نہیں آرہی ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے خبر ملی کہ آپ کو میرے گھوڑے کی آواز سے تکلیف ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے خصی کر دیا۔ اس پر حضور ﷺ نے گھوڑوں کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ مجھ سے لوگوں نے کہا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم بھی حضورﷺ سے اپنے لیے کوئی خط لے لیتے جیسے تمہارے چچازاد بھائی حضرت تمیم داری ؓ نے حضورﷺ سے لیا تھا۔ میں نے کہا: انھوں نے حضورﷺ سے دنیا کی کوئی چیز مانگی ہے یا آخرت کی؟ لوگوں نے کہا: دنیا کی۔ میں نے کہا: دنیا تو میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں تو حضور ﷺ سے یہ چاہتا ہوں کہ کل (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ کے سامنے میری مدد فرمائیں۔1