حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے قاتل کو دیکھا تو فرمایا: تیرا بھلا ہو! تم نے میرے ایسے بھائی کو قتل کیا ہے کہ جب بھی پُروا ہوا چلتی ہے تو مجھے وہ بھائی یاد آجاتا ہے (یعنی مجھے اس سے بہت زیادہ محبت ہے)۔3 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ ؓ شہید ہوگئے تو (ان کی ہمشیرہ) حضرت صفیہؓ انھیں تلاش کرتی ہوئی آئیں۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ حضرت حمزہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ راستہ میں حضرت علی اور حضرت زبیر ؓ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ حضرت علی نے حضرت زبیر سے کہا: تم اپنی والدہ کو بتا دو (کہ حضرت حمزہ شہید ہوگئے ہیں)۔ حضرت زبیر نے حضرت علی سے کہا:نہیں، بلکہ آپ اپنی پھوپھی کو بتائیں۔ حضرت صفیہ نے ان دونوں سے پوچھا کہ حضرت حمزہ کا کیا ہوا؟ ان دونوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے کہ انھیں معلوم نہیں ہے۔ وہ چلتے چلتے حضورﷺ تک پہنچ گئیں۔ حضورﷺ نے انھیںدیکھ کر فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ صدمہ کی شدت سے ان کے دماغ پر اثر نہ پڑ جائے اس لیے آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا فرمائی (اور پھر انھیں بتایا جس پر) حضرت صفیہ نے إِنَّا لِلّٰہِ پڑھی اور رونے لگیں۔ پھر حضورﷺ تشریف لے گئے اور حضرت حمزہ کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے۔ ان کے ناک، کان اور دیگر اَعضا کٹے ہوئے تھے۔ تو آپ نے فرمایا: اگر (رشتہ دار)عورتوں کی پریشانی کا ڈر نہ ہوتا تو میں انھیں (دفن نہ کرتا، بلکہ) یہیں چھوڑ دیتا تاکہ کل قیامت کے دن ان کا حشر پرندوں کی پوٹوں اور درندوں کے پیٹوں سے ہوتا۔ پھر آپ کے فرمانے پر شُہَدا کے جنازوں کو لایا گیا اور آپ ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے لگے۔ اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت حمزہ کے ساتھ نو اور جنازے رکھے جاتے، آپ سات تکبیروں کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھتے، پھر نو جنازے تو اٹھالیے جاتے لیکن حضرت حمزہ کا جنازہ وہاں ہی رہنے دیا جاتا۔ پھر نو اور جنازے لائے جاتے آپ سات تکبیروں کے ساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھتے۔ یوں ہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ آپ ان کی نمازِ جنازہ سے فارغ ہوئے۔1 حضرت زبیر بن عوّام ؓ فرماتے ہیں کہ جنگِ اُحد کے دن ایک عورت سامنے سے تیز چلتی ہوئی نظر آئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مقتول شُہَدا کو دیکھنا چاہتی ہے۔ حضورﷺ نے اسے پسند نہ فرمایا کہ یہ عورت انھیں دیکھے، اس لیے حضورﷺ نے فرمایا: عورت! عورت! یعنی اسے روکو۔ مجھے دیکھنے سے اندازہ ہوگیا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ ؓ ہیں۔ چناںچہ میں دوڑ کر ان کی طرف گیا اور ان کے شُہَدا تک پہنچنے سے پہلے میں ان تک پہنچ گیا۔ انھوں نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارا وہ بڑی طاقت ور تھیں۔ اور انھوں نے کہا: پرے ہٹ! زمین تیری نہیں ہے۔ میں نے کہا: حضورﷺ نے بڑی تاکید سے آپ کو اِدھر جانے سے روکا ہے۔ یہ سن کر وہ وہیں رک گئیں۔ اور ان کے پاس دو چادریں تھیں انھیں نکال کر فرمایا: یہ دو چادریں میں اپنے بھائی حمزہ کے لیے لائی ہوں، مجھے ان کے شہید ہونے کی خبر مل چکی ہے، لہٰذا ان کو ان میں کفن دے