حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس نے آپ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اس موقع کی ہدایت پر آپ کو پکا کر دیا (یعنی اس موقع پر صبر و ہمت سے کام لینے کی توفیق عطا فرما دی)۔ پھر حضرت ابوبکر باہر آگئے، پھر اندر آئے اور فرمایا: اے بِٹیا! کیا تمھیں اس بات کا ڈر ہے کہ تم نے عبد اللہ کو زندہ ہی دفن کر دیا ہو؟ حضرت عائشہ نے کہا: اے ابا جان! إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت ابو بکر نے کہا: میں شیطان مردود سے اس اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے بِٹیا! ہر آدمی کے دل میں دو طرح کے خیالات آتے ہیں: ایک اچھے جو فرشتے کی طرف سے آتے ہیں، ایک برے جو شیطان کی طرف سے آتے ہیں۔ پھر قبیلہ ثقیف کا وفد (طائف سے) حضرت ابو بکر کے پاس آیا تو وہ تیر جو حضرت ابو بکر کے بیٹے عبد اللہ کو لگا تھا وہ ان کے پاس تھا۔ حضرت ابو بکر نے وہ تیر نکال کر انھیں دکھایا اور پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی اس تیر کو پہچانتا ہے؟ تو قبیلہ بنو عجلان کے حضرت سعد بن عبیدؓ نے کہا: اس تیر کو میں نے تراشا تھا اور میں نے اس کا پر لگایا تھا اور اس کا پٹھا لگایا تھا اور میں نے ہی یہ تیر مارا تھا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: (میرا بیٹا) عبد اللہ بن ابی بکر اسی سے شہید ہوا ہے، لہٰذا تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے تمہارے ہاتھوں سے شہادت سے نوازا اور تمھیں اس کے ہاتھ سے (قتل کروا کر) ذلیل نہیں کیا (ورنہ تم دوزخ میں جاتے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ وسیع حمایت و حفاظت والے ہیں۔1 بیہقی کی روایت میں یہ ہے کہ اللہ نے تمھیں اس کے ہاتھ سے ذلیل نہیں کیا، بے شک اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کے لیے (فائدہ میں) وسعت پیدا فرما دی۔2 حضرت عمرو بن سعیدؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی حضرت عثمانؓ کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو حضرت عثمان اسے منگواتے۔ اسے کپڑے کے ٹکڑے میں لپیٹ کر لایا جاتا، پھر وہ اسے ناک لگا کر سونگھتے۔ کسی نے پوچھا: آپ اس طرح کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا: میں اس لیے کرتا ہوں تاکہ میرے دل میں اس کی کچھ محبت پیدا ہو جائے اور پھر اگر اسے کچھ ہو (یعنی بیمار ہو جائے یا مر جائے) تو (اس محبت کی وجہ سے) دل کو رنج و صدمہ ہو اور پھر صبر کیا جائے اور اس کی جنت ملے (جب بچہ سے محبت نہیں ہوگی تو اس کی بیماری یا موت سے صدمہ بھی نہیں ہوگا اور صبرکرنے کی ضرورت نہیں ہوگی)۔1 حضرت ابوذرؓ سے کسی نے پوچھا: کیا بات ہے آپ کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا؟ فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو میرے بچوں کو اس فانی گھر سے لے رہا ہے اور ہمیشہ رہنے والے گھر یعنی جنت میں جمع کر رہا ہے۔2 حضرت عمر بن عبد الرحمن بن زید بن خطّاب ؓکہتے ہیں کہ جب بھی حضرت عمر ؓ کو کوئی رنج وصدمہ پہنچتا تو (اپنے کو تسلی دینے کے لیے) فرماتے کہ مجھے (میرے بھائی) حضرت زید بن خطّاب ؓ (کی شہادت) کا زبردست صدمہ پہنچا تھا، لیکن میں نے اس پر صبر کر لیا تھا (تو یہ تو اس سے چھوٹا ہے اس پر تو صبر کرنا ہی چاہیے)۔ حضرت عمر نے اپنے بھائی حضرت زید