حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
چاہتی ہو (مشرک ہونے کا بہانہ تو تم ویسے ہی کر رہی ہو)۔ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا کہ میں تمھیں اور اللہ کے نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ بناتی ہوں کہ اگر تم اسلام لے آؤ گے تو میں تم سے اسلام پر راضی ہو جاؤں گی ( اور مہر کا مطالبہ نہ کروں گی یہ اسلام ہی مہر ہوگا)۔ حضرت ابو طلحہ نے کہا: میرا یہ کام کون کرے گا؟ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: اے انس! اٹھو اور اپنے چچا کے ساتھ جاؤ۔ چناںچہ (میں اٹھا اور) حضرت ابو طلحہ بھی اٹھے اور انھوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا، پھر ہم دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ جب ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے قریب پہنچے تو حضورﷺ نے ہماری گفتگو سن لی تو حضورﷺ نے فرمایا: یہ ابو طلحہ ہیں۔ ان کی پیشانی پر اسلام کی رونق ہے۔ چناںچہ حضرت ابو طلحہ نے جا کر حضورﷺ کو سلام کیا اور کلمۂ شہادت أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھا۔ حضورﷺ نے اسلام پر ہی ان کی شادی حضرت اُمّ سُلَیم سے کر دی۔ حضرت اُمّ سُلَیم سے ان کا بیٹا پیدا ہوا۔ جب وہ چلنے لگا اور والد کو اس سے بہت پیار ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کرلی۔ پھر حضرت ابو طلحہ جب گھر آئے تو انھوں نے پوچھا: اے اُمّ سُلَیم! میرے بیٹے کا کیا ہوا؟ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: پہلے سے بہتر ہے۔ (یہ غلط نہیں کہا، اس لیے کہ مؤمن کی حالت مرنے کے بعد دنیا سے بہتر ہو جاتی ہے) پھر حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: آج آپ نے دوپہر کے کھانے میں دیر کر دی تو کیا آپ دوپہر کا کھانا کھائیں گے؟ فرماتی ہیں: پھر میں نے کھانا ان کے سامنے رکھا اور میں نے ان سے کہا: کچھ لوگوں نے ایک آدمی سے کوئی چیز بطورِ عاریت لی، پھر وہ عاریت ان کے پاس کچھ عرصہ رہی اور عاریت کے مالک نے آدمی بھیج کر اس عاریت کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اپنی عاریت واپس لے لی، تو کیا ان لوگوں کو اس پر پریشان ہونا چاہیے؟ حضرت ابو طلحہ نے کہا: نہیں۔ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: تو پھر آپ کا بیٹا اس دنیا سے چلا گیا ہے (آپ کو اللہ نے دیا تھا اور اب اسے واپس لے لیا ہے)۔ حضرت ابو طلحہ نے پوچھا: اس وقت وہ کہاں ہے؟ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: وہ اندر کوٹھڑی میں ہے۔ چناںچہ حضرت ابو طلحہ نے اندر جا کر اس بچے کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور إِنَّا لِلّٰہِ پڑھی اور جا کر حضورﷺ کو حضرت اُمّ سُلَیم کی ساری بات بتائی۔ حضورﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے! اُمّ سُلَیم نے چوںکہ اپنے اس بیٹے کے مرنے پر صبر کیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں ایک اور لڑکے کا حمل شروع کر دیا ہے۔ چناںچہ جب حضرت اُمّ سُلَیم کے ہاں وہ لڑکا پیدا ہوا تو حضورﷺ نے فرمایا: اے انس! اپنی والدہ سے جا کر کہو کہ جب تم اپنے بیٹے کی ناف کاٹ لو تو اسے کچھ چکھانے سے پہلے میرے پاس بھیج دو۔ چناںچہ حضرت اُمّ سُلَیم نے وہ بچہ میرے بازوؤں پر رکھ دیا اور میں نے آکر حضورﷺ کے سامنے اس بچے کو رکھ دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: میرے پاس تین