حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک روایت میں یہ ہے کہ اگر حارثہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں گی اور اگر کہیں اور ہے تو میں اس کی وجہ سے رونے میں سارا زور لگاؤں گی۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے اُمّ حارثہ! وہاں تو کئی جنتیں ہیںاور تمہارا بیٹا فردوسِ اعلیٰ میں گیا ہے۔1 طبرانی کی روایت میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اے اُمّ حارثہ! وہاں ایک جنت نہیں ہے بلکہ بہت سی جنتیں ہیں اور وہ فردوسِ اعلیٰ جنت میں ہے۔ حضرت اُمّ حارثہ نے کہا: پھر تو میں صبر کروں گی۔ ابنِ نجار کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت اُمّ حارثہ ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میرا بیٹا جنت میں ہے تو میں نہ روؤں گی اور نہ غم کا اظہار کروں گی، اور اگر وہ جہنم میں ہے تو میں جب تک دنیا میں زندہ رہوں گی روتی رہوں گی۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے اُمّ حارثہ! وہاں ایک جنت نہیں ہے بلکہ کئی جنتیں ہیںاور (تمہارا بیٹا) حارث (پیار کی وجہ سے حارثہ کی جگہ حارث فرمایا) تو فردوسِ اعلیٰ میں ہے۔ اس پر وہ ہنستی ہوئی واپس گئیں اور کہہ رہی تھیں: واہ واہ! اے حارث! تیرے کیا کہنے۔2 حضرت محمد بن ثابت بن قیس بن شماسؓ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنو قریظہ کی لڑائی میں انصار کے ایک صاحب شہید ہوگئے جنھیں خلّاد کہا جاتا تھا۔ کسی نے آکر ان کی والدہ سے کہا: اے اُمّ خلّاد! خلّاد شہید ہوگئے۔ تو وہ نقاب پہنے ہوئے باہر آئیں۔ کسی نے کہا: تمہارا بیٹا خلّاد شہیدہوگیا ہے اور تم نے نقاب پہنا ہوا ہے (تمھیں اظہارِ غم کے لیے نقاب اتار دینا چاہیے)۔ انھوں نے کہا: اگر میرا بیٹا خلاد چلا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میں شرم وحیا کو بھی ہاتھ سے جانے دوں۔ حضور ﷺکو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: غور سے سنو! خلّاد کو دو شہیدوں کا اجر ملا ہے۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہوا؟ حضورﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ اہلِ کتاب نے اسے قتل کیا ہے۔3 حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ (ان کی والدہ) حضرت اُمّ سُلَیم ؓ (اپنے خاوند) ابو انس کے پاس آئیں اور کہا: آج میں ایسی خبر لائی ہوں جو تمھیں پسند نہیں آئے گی۔ ابو انس نے کہا: تم اس دیہاتی کے پاس سے ہمیشہ ایسی خبریں لاتی ہو جو مجھے پسند نہیں آتیں۔ حضرت اُمّ سُلیم نے کہا: تھے تو وہ دیہاتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں چن لیا اور انھیں پسند کر کے نبی بنایا ہے۔ ابو انس نے کہا: اچھا! کیا خبر لائی ہو؟ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: شراب حرام کر دی گئی۔ ابو انس نے کہا: آج سے میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہوگئی (یعنی میں نے تمھیں طلاق دے دی)۔ اور ابو انس حالتِ شرک میں ہی مرا۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ (جو اس وقت تک کافر تھے) حضرت اُمّ سُلَیم کے پاس (شادی کرنے کے ارادہ سے) آئے تو حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: جب تک تم مشرک رہو گے میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔ حضرت ابو طلحہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! جو تم کہہ رہی ہو وہ تم چاہتی نہیں ہو۔ حضرت اُمّ سُلَیم نے کہا: میں کیا چاہتی ہوں؟ حضرت ابو طلحہ نے کہا: تم سونا اور چاندی لینا