حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عمل بھی بُرے کرتا ہے اور اپنے بارے میں دھوکہ میں مبتلا رہتا ہے۔ اللہ کی قسم! گزشتہ زمانے میں اور موجودہ زمانے میں میں نے یہی پایا کہ جو بندہ اچھے عمل میں ترقی کرتا ہے وہ اللہ سے ڈرنے میں بھی ترقی کرتا ہے، اور جو بُرے عمل میں ترقی کرتا ہے اس کا اپنے بارے میں دھوکہ بھی بڑھتا جاتاہے۔1 حضرت عمرو بن میمون ؓ حضرت عمر ؓ کی شہادت کا قصہ ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرنے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا: دیکھو! مجھ پر کتنا قرض ہے؟ اس کا حساب لگائو۔ انھوں نے کہا: چھیاسی ہزار۔ حضرت عمرنے کہا: اگر عمر کے خاندان کے مال سے یہ قرضہ ادا ہو جائے تو ان سے مال لے کر میرایہ قرضہ ادا کر دینا، ورنہ (میری قوم) بنو عدی بن کعب سے مانگنا۔ اگر اُن کے مال سے میرا تما م قرضہ اُتر جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ (میرے قبیلہ) قریش سے مانگنا۔ ان کے بعد کسی اور سے نہ مانگنا اور میرا قرضہ ادا کردینا۔ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں جاکر سلام کرو اور ان سے کہو، عمر بن خطّاب اپنے دونوں ساتھیوں (حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ) کے ساتھ (حجرۂ مبارک میں) دفن ہونے کی اجازت مانگ رہاہے۔ عمر بن خطّاب کہنا اور اس کے ساتھ امیر المؤمنین نہ کہنا، کیوںکہ میں آج امیرالمؤمنین نہیںہوں۔ چناںچہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں گئے تودیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہیں۔ سلام کر کے اُن کی خدمت میں عرض کیا: عمر بن خطّاب اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے اس جگہ دفن ہونے کی اپنے لیے نیت کی ہوئی تھی، لیکن میں آج حضرت عمر کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی (یعنی اُن کو اجازت ہے)۔ جب حضرت عبد اللہ بن عمر واپس آئے تو حضرت عمرنے کہا: تم کیا جواب لائے ہو؟ حضرت عبد اللہ نے کہا: انھوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمرنے فرمایا: (اس وقت) میرے نزدیک اس کام سے زیادہ ضروری کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر فرمایا: جب میں مر جائوں تم میرے جنازے کو اُٹھا کر (حضرت عائشہ ؓ کے دروازے کے سامنے) لے جانا، پھر اُن سے دوبارہ اجازت طلب کرنا اور یوں کہنا کہ عمربن خطاب (حجرہ میں دفن ہونے کی) اجازت مانگ رہے ہیں۔ اور اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے اندر لے جانا (اور اس حجرہ میں دفن کر دینا) اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے واپس کر کے مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کر دینا۔ جب حضرت عمر ؓ کے جنازے کو اٹھایا گیا تو (سب کی چیخیں نکل گئیں اور) ایسے لگا کہ جیسے آج ہی مسلمانوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔ چناںچہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے سلام کر کے عرض کیا کہ عمر بن خطّاب (اندر دفن ہونے کی) اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہ نے اجازت دے دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کو حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دفن ہونے کا شرف عطافرما دیا۔