حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
نے کہا: یہ کیا ہے (کہ آپ خود ہی آٹا گوندھ رہے ہیں؟) انھوں نے فرمایا: (آٹا گوندھنے والے) خادم کو ہم نے کسی کام کے لیے بھیج دیا اس لیے ہم نے اسے اچھا نہ سمجھا کہ ہم اس کے ذمہ دو کام لگادیں۔ پھر اس آدمی نے کہا: فلاں صاحب آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔ حضرت سلمان نے پوچھا: تم کب آئے تھے؟ اس نے کہا: اتنے عرصے سے آیا ہوا ہوں۔ حضرت سلمان نے فرمایا: اگر تم اس کا سلام نہ پہنچاتے تو پھر یہ وہ امانت شمار ہوتی جو تم نے ادا نہیں کی (تمہارے ذمہ باقی رہتی)۔1 حضرت عمرو بن ابو قرّہ کِنْدِی ؓکہتے ہیںکہ میرے والد نے حضرت سلمان ؓکی خدمت میں یہ بات پیش کی کہ وہ ان کی ہمشیرہ سے شادی کرلیں، لیکن حضر ت سلمان نے انکار کر دیا بلکہ (میرے والد کی آزادکردہ) بُقَیرہ نامی باندی سے شادی کرلی۔ پھر (میرے والد) حضرت ابو قرّہ کو پتا چلا کہ حضرت حذیفہ اور حضرت سلمانؓ کے درمیان کچھ بات ہوئی ہے۔ تو میرے والد حضرت سلمان کے پاس گئے۔ وہاں جا کر انھوں نے حضرت سلمان کے بارے میں پوچھا تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ اپنے سبزی کے کھیت میں ہیں۔ میرے والد وہاں چلے گئے تو وہاں حضرت سلمان کے پاس ایک ٹوکری تھی جس میں سبزی تھی، انھوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کے دستے میں ڈال کر اپنے کندھے پر رکھی ہوئی تھی۔ پھر وہ لوگ وہاں سے چل پڑے۔ جب حضرت سلمان کے گھر پہنچے اور وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہونے لگے تو انھوں نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ پھر انھوں نے (میرے والد) حضرت ابو قُرّہ کو اندر آنے کی اجازت دی۔ میرے والد نے اندر جا کر دیکھا تو بچھونا بچھا ہوا تھا اور اس کے سرہانے چند کچی اینٹیں تھیں اور تھوڑی سی کچھ اور چیز بھی رکھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرے والد سے کہا: تم اپنی (آزادکردہ) باندی کے اس بستر پر بیٹھ جاؤ جسے وہ اپنے لیے بچھاتی ہے۔2 قبیلہ بنو عبدِ قیس کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمان ؓ کو گدھے پر سوار ایک لشکر میں دیکھا جس کے وہ امیر تھے، انھوں نے شلوار پہنی ہوئی تھی جس کی پنڈلیاں (ہوا کی وجہ سے) ہل رہی تھیں۔ لشکر والے کہہ رہے تھے: امیر صاحب آرہے ہیں۔ حضرت سلمان نے فرمایا: اچھے اور برے کا پتا تو آج (یعنی دنیا سے جانے) کے بعد (قیامت کے دن) چلے گا۔1 قبیلہ بنو عبدِ قیس کے ایک صاحب کہتے ہیں: حضرت سلمانؓ ایک لشکر کے امیر تھے۔ میں ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ لشکر کے چند جوانوں کے پاس سے گزرے، انھیں دیکھ کر ہنسے اور کہنے لگے: یہ ہیں تمہارے امیر۔ میں نے حضرت سلمان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: انھیں چھوڑو (جو کرتے ہیں کرنے دو) کیوںکہ اچھے اور برے کا پتا تو آج کے بعد (کل قیامت کے دن) چلے گا۔ اگر تمہارا بس چلے تو مٹی کھا لینا لیکن دو